ایران کی آمرانہ تھیوکریٹک ریاست کا ایک عکس

تحریر: حبیب کریم

ماضی قریب اور حال میں تاریخی موضوعات پر خامہ فرسائی کرنے والے مصنفین میں میرے پسندیدہ ترین مصنفین سر وی ایس نیپال، پروفیسر یوگین روگان اور الان پاپے ہیں۔ اس فہرست میں اب لارا سیکور کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر کوئی ادیب تاریخی موضوعات پر لکھے تو اسے سر وی ایس نیپال جیسا لکھنا چاہیے۔ اگر کوئی صحافی تاریخ پر لکھنا چاہے تو اسے لارا سیکور سے تاریخ پر لکھنے کا فن سیکھنا چاہیے۔ اور اگر کسی نے جدید ادبی انگریزی بھی ساتھ سیکھنی ہو تو اپنے دن رات نیپال اور سیکور کے مطالعے کے لیے وقف کر دے۔

لارا سیکور امریکی صحافی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز اور دیگر عالمی شہرت یافتہ اخبارات اور میگزینز کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ بطور محقق اور مصنفہ ان کی تحقیق اور تخلیق کا محور ایرانی سیاست ہے۔ 2016 میں ان کی زیرِ نظر کتاب ‘چلڈرن آف پیراڈائیز’ مارکیٹ میں آئی اور ایران کی جدید تاریخ، سیاست اور انسانی حقوق کے حوالے سے ہوشرُبا حقائق نے اس کتاب کو راتوں رات اوج ثریا تک پہنچا دیا۔ اور اِسے فوراً ایران میں کٹھ مُلّائی دور پر لکھی گئی کتابوں میں مصدقہ اور سنجیدہ ترین کتابوں میں شمار کیا جانے لگا۔

لارا نے اپنی کتاب کا آغاز ایران میں اسّی کی دہائی میں ایرانی دانشور طبقات میں موجود مابعد الطبیعاتی مباحث سے کیا ہے، جن کے روح رواں علی شریعتی، عبدالکریم سروش اور احمد فردید ہیں۔ علی شریعتی نے افلاطون کے ”فلاسفر کِنگ“ کے تصور سے ”ڈاریکٹڈ ڈیموکریسی“ کا تصوّر گھڑا اور پھر اس سے خمینی نے ”ولایت فقیہ“ کی آبیاری کی۔ مراد ایک اسلامی فقہی کونسل کی آمرانہ حکومت جو عوام کو جوابدہ نہیں۔

دوسری جانب عبدالکریم سروش اور احمد فردید جو مقتدر طبقے کے ہی نمائندہ تھے، ان میں اور ان کے معتقدین میں ایک طویل علمی اور مابعد الطبیعاتی بحث کا آغاز ہوا جس نے ایران کی سیاسی، سماجی اور علمی تاریخ پر کم عرصے میں گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے۔

سروش نے کارل پوپر کو ایران میں متعارف کرایا۔ اور مارکسزم کو پڑھ کر کارل پوپر کے ذریعے اس کو رد کرنے کی کوشش کی۔ پوپر کی (دی اوپن سوسائیٹیز اینڈ اٹس انیمیز) کی فارسی اور انگریزی کاپیاں لاکھوں کے حساب سے ایران میں بِکیں۔ جبکہ احمد فردید نے مغرب سے مارٹن ہائیڈیگر کو ادھار لیا اور اس کے ذریعے سروش کے اصلاح پسند اسلامی فکر پر ضربیں لگانے کی کوشش کی۔

چونکہ سروش اور فردید دونوں بنیادی طور پر مقتدر طبقے کے ساتھ جُڑے ہوۓ تھے تو ان کے درمیان جاری یہ مباحث اتنے سنسنی خیز اور دلچسپ خیال کیے جاتے تھے کہ سرکاری ذرائع ابلاغ سے ان کی باقاعدہ ٹرانسمیشن کی جاتی تھی اور ہزاروں لوگ ہمہ تن گوش ہو کر انہیں سنتے۔

مختصراً یہ ایران میں پوپر اور ہائیڈیگر کے درمیان ایک پراکسی جنگ تھی۔ لارا سیکور کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ وہ تاریخ کو آرٹ کے طور پر ادبی و فلسفیانہ چاشنی کے ساتھ بیان کرنا جانتی ہیں۔ تبھی نقل کیے گئے درجنوں چشم کشا اور دلگداز واقعات کے ساتھ ساتھ علمی اور فلسفیانہ مباحث قاری کو کتاب کے آخری سطر تک کتاب سے طلسماتی انداز میں جھکڑے رکھتے ہیں۔

مصنفہ نے 2004 سے لے کر 2014 تک ایران میں اپنے مختلف تحقیقاتی دوروں کے ان دس سالوں میں کئی اہم دستاویزات سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں لوگوں کے انٹرویوز لیے۔ ان میں ملک کے چُوٹی کے صحافی، دانشور، سیاستدان، قلمکار، ادباء، طلباء، سیاسی کارکنان، متاثرہ خاندانوں سمیت سمیت بیشتر وہ لوگ شامل تھے جو زندان سے زندہ سلامت بچ نکل کر کامیاب ہو گئے تھے۔

شاہ محمد رضا پہلوی کے دور میں ایران کے پہلے صدر اور موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ ایک کمیونسٹ ھوشنگ اسدی مشترک نامی جیل میں قید تھا۔ دونوں نے زندان میں یادگار دوستانہ لمحات ایک ساتھ گزارے۔ دونوں کے ادبی ذوق نے ان کی قربت میں اضافہ کیا تھا۔ اسدی اپنے حصے کے سگریٹ خامنہ ای کو تھماتا اور وہ ایک روایتی مولوی کے برخلاف ان سگریٹوں کو پھونکتا۔ وہ آپس میں لطائف کا تبادلہ کرتے۔ اپنی ماضی کے واقعات سنا کر ایک دوسرے کی دل پشوری کرتے۔

کچھ ماہ بعد خامنہ ای نے رہائی کا پروانہ ملنے پر اسدی کے کان میں سرگوشی کرتے ہوۓ اسے الوداع کہا کہ ”اسدی! جب اسلام آۓ گا تو کسی معصوم کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں نکلے گا۔“ ایران میں خمینی کی تھیوکریٹک حکومت قائم ہوئی۔ موجودہ سپریم لیڈر خامنہ ای تب پہلا صدر بنا۔ اور اپنے اسی قید کے ساتھی ھوشنگ اسدی کو پھانسی کی سزا دے کر بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے واپس اُسی جیل میں دھکیل دیا۔ ھوشنگ اسدی پر بیہیمانہ تشدد کی داستان جو انہوں نے ‘لٹرز ٹو مائی ٹارچرر’ کے عنوان سے یادداشتوں کی صورت میں لکھے، اسّی کی دہائی میں ایرانی کٹھ ملائیت کے ان ہولناک وارداتوں کی جھلک ہے جسے ایران کی تاریخ میں انسانی حقوق کے حوالے سے بھیانک ترین دَہائی کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔

سال 1080 سے 1988 تک ایرانی کٹھ ملّائی حکومت نے تیس ہزار سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دیں۔ اور ہزاروں کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا۔ 1988 کے وسط میں یہ انسانیت سوز عمل اپنے عروج کو پہنچا جب خمینی کے ایک فتوی کے تحت چند دنوں کے اندر پانچ ہزار سیاسی مخالفین کو پھانسی کے پھندے پہ لٹکایا گیا۔

جلّادوں نے پھانسی کے منتظر قیدیوں کی کثیر تعداد کی بنا پر تنگیِ وقت کی شکایت کی۔ اور فائرنگ سکواڈز استعمال کرنے کی درخواست کی۔ مگر رازداری کے لیے پھانسیوں کے دوران خاموش ماحول کو یقینی بنانا حکومت کی ترجیح تھی۔ اس دوران موت کے گھاٹ اتارے جانے والے شہریوں کی کثیر تعداد ایران،عراق جنگ میں مرنے والوں کی تعداد سے بھی اسّی گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔

خمینی کے بعد یہ سلسلہ مزید زور و شور سے چلتا رہا اور ہنوز جاری ہے۔ ٹارچر سیلز میں قیدیوں سے ڈیتھ کمیشنز کے سامنے اگلواۓ گئے ”جبری اعترافات“ تشدد سے زیادہ خطرناک اور المناک پہلو رکھتے ہیں۔ جیریمی بینتھم کے ڈسٹوپئین سماجی تصورات اور جورج آرویل کے ڈسٹوپئین ادبی فن پارے ان چشم کشا انسانیت سوز واقعات و حقائق کے سامنے ہیچ ہیں۔ زندہ بچنے کے لیے لازم تھا کہ قیدی برسرعام اپنے ناکردہ جرائم کا ”اعتراف“ کرتا۔ اور ”اعتراف“ کے لیے ضروری تھا کہ قیدی کہے کہ__ میں مسلمان نہیں ہوں، میں تاریخی مادّیت کو گمراہ کن مانتا ہوں، میں جنسی تعلقات جیسے جرائم میں ملوث رہا ہوں، میں صوم و صلاة کا پابند نہیں رہا ہوں، میرے والدین بھی صوم و صلاة کے پابند نہیں ہیں اور اگر وہ پابند ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ میں ہی گمراہ اور مشرک ہوں۔

مختلف خواتین جنہیں بدنام اور بلیک میل کرنا مقصود ہوتا، ان کی فہرست قیدی کو دکھائ جاتی کہ کم از کم ان میں سے کسی ایک کے ساتھ جنسی تعلق کا برسرعام اعتراف کرے ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جاۓ۔ 2003 میں نوبیل انعام حاصل کرنے والی ایرانی خاتون جج شیریں عبادی کو خاتون ہونے کی بنا پر خمینی نے ان کے عہدے سے فارغ کیا تھا۔ شیریں عبادی جنھیں تازہ نوبیل انعام ملا تھا، ایک قیدی شھرام رفیزاده جس کی قید و بند کی صعوبتوں کا مصنفہ نے تفصیل سے تذکرہ کیا ہے، اس سے ڈیتھ کمیشن کے سامنے شیریں عبادی کے ساتھ جنسی تعلقات کا اعتراف کرنے کا کہا گیا۔ سینکڑوں قیدیوں کے سامنے ڈیتھ کمیشن کی جانب سے پہلے سے ہی لکھے گئے ہولناک جرائم پر مشتمل جعلی اعترافی بیانات پیش کیے جاتے، جنھیں قیدیوں سے زبردستی رَٹوانے کے بعد میڈیا کے سامنے ان جعلی جرائم کو قبول کرنے کا کہا جاتا۔

عباس امیر انتظام کو ایران کا نیلسن منڈیلا کہا جاتا ہے۔ ان پر خطرناک ترین الزامات یہ تھے کہ امریکی حکام انہیں لکھے گئے خطوط میں ”ڈیئر“ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ مبینہ طور پر بہائی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑا جرم یہ کہ وہ بہت زیادہ دولت مند ہیں۔ یہ الزامات تھے کہ جن کی وجہ سے انہیں ستائیس سال قید و بند میں گزارنے پڑے۔

بہرحال، قیدیوں کے زندہ بچنے کے لیے ایسے تمام تر الزامات کا ”اعتراف“ لازمی تھا۔ وگرنہ ایران کے گوانتانا مو، ”ایوین جیل“ کے ”معجزاتی کمرے“ سے باہر بدنام زمانہ ‘دی ہینگنگ جج’ آیت اللہ صادق خلخالی اور ‘دی بچر آف دی پریس’ سعید مرتضوی ایسے باہمت قیدیوں کو موت کا پروانہ تھمانے کے لیے منتظر رہتے تھے۔

ایران کے جلّاد جج کے نام سے معروف خلخالی نے اپنے براہ راست آرڈرز سے ہزاروں کُرد باشندوں، سیاسی مخالفین، طلباء وغیرہ کو اسلامی انقلاب کی سربلندی کے لیے پھانسی کے تختے پر چڑھایا۔ متعدد سیاسی مخالفین کو تو اس سائیکوپاتھ جج نے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے اپنے ہاتھوں سے خود موت کے گھاٹ اتارا۔

ایوین جیل کے قیدی ایران کے مشہور صحافی روزبه میربراہیمی سے ایک بار خلخالی نے کہا کہ ”مجھے اپنے اقدامات پر کوئی تاسف نہیں ہے۔ میرے خیال میں تو اب بھی کم مارے ہیں میں نے۔ موت کے بہت سے حقدار اب بھی باقی ہیں جو میرے ہاتھ نہ آسکے”۔

دوسرا سعید مرتضوی ‘دی بچر آف پریس’ اور ‘ٹارچرر آف تہران’ کے نام سے بدنام زمانہ تہران کا پراسیکیوٹر جو صحافیوں کے لیے قصاب کے طور پر جانا جاتا ہے، موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا دست راست ہے۔ انصار حزب اللہ اور پاسداران انقلاب کے ہاتھوں کئی صحافیوں کی ماوراۓ عدالت قتل میں ملوث رہا ہے جن میں کئی خواتین صحافی شامل ہیں۔ انٹرنیشنل کریمینل ٹریبیونزل کے سرفہرست مجرموں میں شامل ہے۔ بعد ازاں قدامت پسند ایرانی صدر احمدی نژاد کا قریبی ساتھی اور حکومت میں حصے دار بنا۔ ”مجلس خبرگان رھبری” کے سابق رکن کٹر ایرانی شیعہ مولوی آیت اللہ تقی مصباح یزدی کے ساتھ 98-1988 کے ‘چین مڈرز’ میں عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے نامزد مجرم رہا ہے۔ مصباح یزدی، سعید مرتضوی اور ان کے ہمکاروں کے گھناؤنے جرائم کا پردہ ایران کے عالمی شہرت یافتہ دانشور صحافی اکبر گنجی نے اپنی مشہور کتاب ‘چین مرڈررز آف ایران’ میں چاق کیا ہے۔ جس کی سزا انہیں 2001 سے 2006 تک ”ایوین جیل“ میں بدترین اور بے رحمانہ تشدد کی صورت میں کاٹنی پڑی۔

اکبر گنجی کو ایران کے ”نمایاں ترین سیاسی جہدکار“ کے ساتھ ساتھ ایران کے ”معروف ترین سیاسی قیدی“ کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے۔ ھوشنگ اسدی کی طرح اکبر گنجی نے ‘لٹرز ٹو دی فری ورلڈ’ کے نام سے خطوط لکھے۔ مگر یہ سارے خطوط جیل میں ان کے لکھے گئے ہیں۔ جنہیں ان کے بہی خواہ جیل سے باہر سمگل کرنے میں کامیاب ہوۓ۔ جیل میں ان کے ستر دن کے احتجاجی بھوک ہڑتال کے احوال پر مبنی سیاسی و علمی مباحث سے بھرپور یہ خطوط انتہائی متاثر کن ہیں۔

لارا سیکور کی پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب ایرانی کٹھ مُلّائی حکومت کے ایسے کئی بھیانک ترین کرداروں سے بھرے ہوۓ ہیں جنہوں نے ہزاروں معصوموں کو ”اسلامی انقلاب“ کے تحفظ کے لیے اپنے کٹھ مُلّائی جبر کے بھینٹ چڑھایا۔ ان سب کو زیرِ تحریر لانا ناممکن ہے۔

اس کتاب کو پڑھتے ہوۓ مسلسل یہ خیال ذہن پر چھایا رہا کہ کاش بلوچستان کے سینے میں دفن ان سے زیادہ بدتر اور انسانیت سوز ہزارہا واقعات کو کوئی ایسے ہی قلمبند کرتا۔ لارا جیسی کوئی ایسی مصنفہ یا مصنف ہمارے نصیب میں بھی آتا جو بلوچستان کے ہزاروں بے نام و نشاں قبرستانوں، بے شمار مسخ شدہ لاشوں، ہزاروں ماؤں کے دہائیوں سے لاپتہ جگر گوشوں اور چند رہائی پانے والوں کے دل دہلانے دینے والے لرزہ خیز داستانوں کو دنیا کے سامنے اِسی محققانہ اور عالمانہ پیراۓ میں لاتا۔ بہر کیف، اب تک یہ ایک حسرت ہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.