پی ایم سی: طبی تعلیم کی تجارت

تحریر: ڈاکٹر اصغر دشتی

اکتوبر 2019ء میں وفاقی حکومت نے ‘پی ایم ڈی سی’ کو تحلیل کر کے اس کی جگہ بطور ریگولیٹری باڈی پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کا صدارتی آرڈیننس جاری کیا۔ آرڈیننس کے مطابق میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل، نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ اور نیشنل میڈیکل اتھارٹی پاکستان میڈیکل کمیشن کے ماتحت ہوں گے۔


سال 2020 میں نام نہاد عوامی پارلیمنٹ نے ‘پی ایم سی’ کے نادر شاہی صدارتی فرمان کو بل کی شکل میں پاس کر کے اسے ”ایکٹ آف پارلیمنٹ“ یعنی قانون کا درجہ دے کر اسے پاکستان بھر کے عوام پر مسلط کردیا۔ پاکستانی پارلیمنٹ، اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ نے بغیر کسی بحث و مباحثہ اور قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کی مشاورت اور رائے کے بغیر اس بل کو قانون کی شکل دے دی۔ یہ جانے بغیر کہ اس بل کے پاکستانی عوام اور خاص کر طلبہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

پی ایم سی کے قانون نے اراکین پارلیمنٹ کے بونے پن کو مزید واضح کردیا۔ ‘پی ایم سی’ کی جانب سے پورے پاکستان میں (ایم بی بی ایس) اور (بی ڈی ایس) کے داخلوں کے لیے (ایم ڈی سی اے ٹی) کے نام سے انٹری ٹیسٹ متعارف کروایا گیا جسے پہلے (ایم سی اے ٹی) کہا جاتا تھا۔ ‘ایم ڈی کیٹ’ نے میڈیکل کے طلبہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

جو طلبہ کالج سطح پر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ایم ڈی کیٹ’ میں اس کے برعکس سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ ایم ڈی کیٹ’ انٹری ٹیسٹ میں اس با ت کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا کہ طلبہ نے کن درسی کتابوں اور کن تعلیمی بورڈز سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ایم ڈی کیٹ’ کے پیپرز میں طلبہ کی پچھلی تعلیم و تدریس کے برعکس انہیں ایویلوئیٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سب پی ایم سی’ کی ناکام پالیسیوں کے تحت کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے طلبہ مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔


دراصل پی ایم سی’ پاکستان میں میڈیکل ایجوکیشن کی پرائیوٹائزیشن اور اس کی کمرشلائزیشن کا پروگرام ہے۔ پی ایم سی’ کی تشکیل بطور ریگولیٹری باڈی طلبہ، ڈاکٹرز یا عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں نہ ہی اس کا مقصد میڈیکل ایجوکیشن کے حوالے سے یا عوام کو معیاری طبی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے بہتر اقدامات ہیں۔ پی ایم سی’ کا مقصد پرائیوٹ میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کے مالکان کے بزنس کو بڑھاوا دینا ہے۔

پی ایم سی’ نے جس طرح کے قواعد و ضوابط کو متعارف کروایا ہے اس سے پبلک سیکٹر میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں طلبہ کی تعداد کم ترین سطح پر آجائے گی جبکہ طلبہ کو پرائیوٹ سیکٹر تعلیمی اداروں کی جانب جانے پر مجبور کیا جارہا ہے اور یہی پی ایم سی’ کا اصل ایجنڈہ ہے۔

پبلک سیکٹر میں پہلے سے موجود میرٹ بیسڈ سیٹوں کی تعداد بھی کم کر کے ”سیلف فنانس“ سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب پرائیوٹ میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کا یہ حال ہے کہ وہاں میڈیکل ایجوکیشن کی تدریس کے لیے معیاری اور فل ٹائم فیکلٹی ہی موجود ہیں ہے۔ اکثر ان اداروں میں جزوقتی (پارٹ ٹائم) کانٹریکٹ بیسڈ اساتذہ انتہائی کم تنخواہوں پر میڈیکل کی تدریس کرتے نظر آتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں معیاری میڈیکل گریجویٹس /ڈاکٹرز پیدا نہیں ہوسکیں گے اور مستقبل میں یہی غیر معیاری، غیر تربیت یافتہ ڈاکٹرز عوام اور مریضوں کے لیے پریشانیوں کا سبب بنیں گے۔

پاکستان میں ویسے بھی اسٹرکچرڈ پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ٹریننگ پروگرامز کا کوئی وجود نہیں اس پر پی ایم سی’ جیسے اداروں کی تجارتی طرز فکر اور میڈیکل ایجوکیشن کی مارکیٹائزیشن اسے مزید بدترین صورتحال سے دوچار کردے گی۔ پی ایم سی’ اور اس کے ماتحت اداروں کی پالیسیوں سے جو مستقبل کے ڈاکٹرز پیدا ہوں گے کیا وہ پاکستان کے مخصوص طبی مسائل کی سمجھ بوجھ حاصل کرسکیں گے؟ ترقی یافتہ دنیا میں جو امراض نہیں پائے جاتے وہ تمام امراض غیر معیاری ماحول، گندا پانی، سیورج سسٹم، فضائی آلودگی اور صفائی ستھرائی کے فقدان کے باعث پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔


پی ایم سی’ نے جس طرح بھونڈے انداز میں نیشنل لائسنسنگ ایگزامینیشن (این ایل ای) کا طریقہ کار وضع کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ 2020ء کے بعد (ایم بی ںی ایس) کرنے والے تمام گریجویٹس کے لیے میڈیکل پریکٹس کرنے کے لیے اس لائسنس کے حصول کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ‘ایم بی بی ایس’ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مزید کسی امتحان کی کیا ضرورت ہے؟ کیا ان کو اپنے ہی نظامِ تدریس اور اپنے ہی اداروں پر اعتماد نہیں ہے؟ یا پھر محض بھاری فیسوں کے حصول اور میڈیکل گریجویٹس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔

پی ایم سی’ کی چیرہ دستیوں اور عوام دشمن اور طلبہ دشمن پالیسیوں کے خاتمے کے لیے ایک منظم اور ہمہ گیر تحریک کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.