ماتمی ماٸیں

تحریر: رضوانہ بلوچ

جب ایک ماں اپنا خون نچوڑ کر بچے کو جنم دیتی ہے تو ننھے وجود پر پڑنے والی پہلی نظر ہی اُسے تمام تکالیف سے آزاد کردیتی ہے۔ پھر ماں کے انگ انگ سے محبت کے دریا پھوٹ پڑتے ہیں اور بچہ اُس آفاقی محبت کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے لگتا ہے۔

یہاں دھرتی ء بلوچستان میں ماؤں کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں بلوچستان کے دھرتی میں بچے کے کان میں اسے مسلمان ہونے کی مبارکبادی نہیں بلکہ سب سے پہلے اسے اس کے غلام ہونے کا بھری خبر سنانا ضروری ہونا چاہیے ، یہاں بچے کی پیدائش پہ اس کے کان میں یہ بولنا لازمی ہے ”کہ تم ایک غلام ہو تم نے ایک ایسے بدقسمت دھرتی میں آنکھ کھولا ہے کہ تم کبھی بھی کسی بھی لمحے مارے جا سکتے ہو“

اور اس ماں کو بھی خوش ہونے کی ضرورت نہیں کہ اس نے اپنے لیے ایک سہارا پیدا کی ہے اسے بھی یہ بات ذہن میں لکھ دینی چاہیے کہ اس نے ایک غلام کو جنم دیا ہے جو کھبی بھی کسی بھی وقت رامز کی طرح گولیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔

رامز کی ماں بھی رامز کی پیدائش پہ خوش ہوئی ہوگی اس کو کیا پتا تھا کہ یوں اس کے لخت جگر کو جو لوریاں سن کے سوتا تھا اسے یوں گولیوں سے ہمیشہ سلا دیا جائے گا۔

سنو بلوچستان کی ماؤں یہاں بچوں کی پیدائش تاکہ انہیں یہ درندہ صفت اپنی گولیوں سے بھون سکیں، انہیں لاپتہ کرکے ان پر جبر و تشدد کی انتہاٸی کر سکیں، ان کی مسخ شدہ لاش پھینک کر اپنی درندگی کا ثبوت دے سکیں۔ یہ بچے ہمارے نہیں بلکہ اس مسلط جبر و بربریت کا ایندھن ہیں جہاں طاغوتی لشکر روز ایک لاش گِرا کر اپنی حیوانیت و تسلط کا ثبوت دیتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.