ہماری لاشیں اب دفن ہونے سے انکاری ہیں

تحریر: سازین بلوچ

جب ایک پھول اُگایا جاتا ہے تو انتظار رہتا ہے کہ یہ پھول کب بڑا ہوگا اور کب اسکی خوشبو مجھے محسوس ہوگی۔ اسی آس میں اس پھول کو جان سے زیادہ عزیز رکھا جاتا ہے تاکہ کل کو یہ پھول مجھے خوشبو دے سکے۔

بلوچستان میں ایسے پھول اُگانے سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ پھول پانی نہ ہونے کی صورت میں مرجھا نہ جائیں یا یہ پھول مرجھائے نہ جائیں۔ لیکن بلوچستان کہ ہر گھر کا ایک پھول ضرور مرجھا دیا جاتا ہے۔ کبھی اس پھول کو زنداں میں بند کرکے تو کبھی تابوت میں۔

حیات جیسے پھول کو مرجھانے کے لئے آٹھ گولیاں ماری گئیں۔ برمش کے برمش کو بند کرنے کے لئے اس سے اسکی ماں کو چھین لیا گیا تو دوسری طرف رامز کے آواز کو دبانے کے لئے اسکے سینے میں چھ گولیاں پیوست کی گئیں۔ یہ گولیاں دراصل رامز کو نہیں لگے بلکہ یہ مزاحمت بن کر اس ریاست کے سینے کو چیر کے گئے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ بلوچستان وہ صوبہ تھا جہاں جنگ میں بھی عورتوں اور بچوں کو نہیں مارا جاتا تھا بلکہ انکی حفاظت کی جاتی تھی لیکن آج مرد کو دبانے کے لئے عورتوں اور بچوں پے حملے کروائے جاتے ہیں تاکہ مرد بول نہ پائیں، آوازیں دب کے رہ جائیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حیات بھی بولتا تھا؟ کیا تاج بی بی بھی آزادی پسند تھی؟ کیا شراتون اور اللہ بخش بھی آزادی کے نعرے لگاتے تھے؟ کیا ملک ناز ایجنٹ تھی؟ کیا کلثوم نے بندوق اٹھایا تھا؟ کیا اقبال نے بھی تمہیں للکارا تھا؟ کیا رامز نے غلط پوسٹر اٹھایا تھا؟ کیا رایان نے تم سے بلوچستان مانگا تھا؟

یقیناً ان سوالات کے جوابات گونگے ہونگے کیونکہ جب بندوق چلتی ہے تو گولی کو نہیں بتایا جاتا کہ سامنے والا بے قصور ہے بلکہ یہ بندوق نسل کشی کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ کیونکہ اگر بلوچستان کے باسی زندہ رہے تو یہ سوال کرینگے۔ سیندک اور ریکوڈک کا سوال کرینگے، تعلیمی اداروں کا یہ سوال کرینگے، ہسپتالوں کا سوال کرینگے، بلوچستان سے نکلنے والے معدنیات کا سوال کرینگے، الگ ریاست کا سوال کرینگے، چوکیاں اٹھانے کا سوال کرینگے۔

چلیں زیادہ دور نہیں جاتے، بات کرتے ہیں رواں مہینے کا کہ دو اکتوبر 2021 کو رات کی تاریکی (یقیناً یہ تاریکی کا لفظ خود ریاست کی بزدلی کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان ہے) میں کوئٹہ سے ایک سی ٹی ڈی ٹیم کو اسپیشلی بلیدہ بلایا جاتا ہے تاکہ رند ہاؤس میں حملہ کرکے خلیل رند سمیت پوری فیملی کو ختم کریں (سٹریٹ فائرنگ اس چیز کو ثابت کرتی ہے) لیکن اس رات بارش ہونے کی وجہ سے خلیل نے اپنا جگہ بدل لیا تھا تو یہ گولیاں رامز کے سینے میں جا کے لگیں (رامز خلیل رند کا دس سالہ بیٹا) لوگ کہتے ہیں کہ ریاست ماں ہے لیکن ریاست کو ماں کہنا میری نظر میں ماں جیسی عظیم ہستی کو گالی دینے کے برابر ہے کیونکہ ریاست اگر ماں ہوتی تو بچے بے بس کبھی نہ ہوتے۔ ریاست کے لوگوں کی موجودگی میں ہی رامز تڑپتا رہا لیکن یہ سوتیلی ماں نے ہسپتال لے جانے بھی نہیں دیا جب کہ حقیقت میں سوتیلی ماں بھی اتنی بے حس نہیں ہو سکتی۔

رامز شہید ہوکے امر ہو گیا۔ رامز نے دفن ہونے سے انکار کیا۔ رامز نے بزدلانہ انداز میں دفن ہونے کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ شہید فدا چوک گواہ ہیکہ رامز مزاحمت کر رہا تھا۔ جب بلوچ قوم کے کچھ سوشل میڈیائی جہدکار اپنے گھروں میں آرام فرما رہے تھے اور لوگ کہتے رہے کہ اس میت کو اس طرح مت رکھو دفنا دو، کچھ ہو نہ ہو انصاف ملے نہ ملے لاش خراب ہو جائے گی، تو تابوت کہ اندر سے رامز چیختا چلّاتا ہوا کہتا رہا کہ سڑنا قبول ہے لیکن یوں تاریک رات میں دفن ہونے سے انکار کرتا ہوں۔ اور وہ مسلسل دفن نہ ہونے کی ضِد کر رہا تھا اور انصاف مانگ رہا تھا۔

جب کیچ میں رامز کو انصاف نہیں ملا تو رامز مارچ کرتے ہوئے بلوچستان کے لوگوں کو جگاتے ہوئے ہر رکاوٹ کا سامنا کرتے ہوئے شال پہنچا اور مزاحمت شال میں گورنر ہاؤس کے سامنے کیا اور کٹپتلی ریاست کو مجبور کیا کہ یہ ریاست جھکے۔ رامز کا مقصد صرف اور صرف اپنے لئے انصاف نہیں تھا بلکہ رامز کا مشن اب ہمارے لاشوں کو تاریک راتوں میں دفنانے سے انکار تھا اور آج گورنر ہاؤس کے سامنے رکھے ہوئے دو لاشیں اس بات کا ثبوت دے رہی ہیں کہ رامز جیت گیا۔ رامز قوم کو جگانے میں کامیاب ہو گیا۔ اب واقعی ہماری لاشیں دفن ہونے سے انکاری ہونگی اگر رامز دفن ہونے سے انکاری نہ ہوتا تو آج یہ لاشیں بھی دفنائی جاتیں۔ دو دن مذمت ہوتا اور سب بھول جاتے۔

رامز کے دفن ہونے کے تیسرے روز ہی دو اور لاشیں ہمیں تحفے میں ملیں۔ ایک آٹھ سالہ اللہ بخش کا اور ایک چھ سالا شرھاتون کی۔ اگر رامز کا خون گندہ تھا بقولِ کچھ نام نہاد لوگوں کے اسی لئے اسے مارا گیا لیکن کیا شرھاتون اور اللہ بخش آزادی مانگ رہے تھے۔ بقولِ ڈی سی حسین صاحب کے جو وہ گولے سے کھیل کر شہید ہوئے جس گھر میں ایک وقت کی روٹی میسر نہ ہو کیا اس گھر کا بچہ ہینڈ گرنیڈ سے کھیل سکتا ہے۔ بقولِ ناکو محراب کے ہمارے بچے تو ایک قلم کے لئے ترستے ہیں تو بمب اور گولے ہاتھ میں لے کے کھیلنے کا تصور کرنا بھی ہمارے بچوں کے لئے بہت بڑی بات ہے۔

دکھ اور درد کو قلمبند کرنا بہت مشکل ہے لیکن ایک باپ کے دو ہی بچے اور دونوں تابوت میں بند ہوں تو اس باپ کے لئے قیامت اور کون سا ہے۔ ایک طرف درد بہت ہوتا ہے کہ یہ دونوں بچے تابوت میں ہیں تو دوسری طرف اس بات کی خوشی بھی ہے کہ رامز نے اللہ بخش اور شرھاتون کو بھی مزاحمت کرنا سکھا دیا اور جب تک ہمارے بچے انصاف نہ لیں تب تک دفن ہونے سے انکاری ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو مار کے دشمن ہمارے بچوں کے لاش سے ڈرتی ہے اور ڈر کا ثبوت رامز کے لاش کو ہر چوک پے روکنا اور شرھاتون اور اللہ بخش کے لاش کو بارہ گھنٹے ہوشاب میں روکنا یہ ڈر کی نشانی ہے۔

اللہ بخش اور شرھاتون نہیں ڈرے وہ ان رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے شال پہنچے اور اب وہ گورنر ہاؤس کے سامنے تابوت کہ اندر سے بس ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں کہ یہ ریاست دہشتگرد گیارہ ستمبر سے سراپا احتجاج یہ دونوں بچے آج بھی انصاف کے طلبگار ہیں اور انکی جیت بلوچ قوم کی جیت ہے اور ہمارے بچوں کا نعرہ اب ہماری لاشیں دفن نہیں ہونگے۔ اب ہماری لاشیں مزاحمت کرینگی، تابوت کے اندر سے تمہیں للکاریں گی۔ یہ پھول سرخ پرچم کی قندیل ہیں یہ دفن نہیں ہونگے۔

شہید رامز سمیت یہ دونوں ننھے شہداء اپنے قوم سے بس متحد ہونے کہ طلبگار ہیں کیونکہ یکجہتی دشمن کی ہار اور ہماری جیت ہے جیسے کہ سرخ پرچم کے پیروکار شہید فدا نے کہا تھا کہ اتحاد جدوجہد آخری فتح تک۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.