نا تھمنے والی آگ

تحریر: رضوانہ بلوچ

ایک ہی ماہ کے اندر بلوچستان میں چار ایسے دردناک واقعات رونماء ہوئے ہیں جنہیں دیکھ کر کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے۔

پہلا واقعہ رامز جان کا تھا جسے دہشتگرد خونخوار پولیس نے 2 اکتوبر 2021 کی رات کے اندھیرے میں اس کے سینے میں گولیاں پیوست کیں۔ اس وقت ان کے ہاتھ نہیں لرزے، اس وقت ان درندوں کو معصوم رامز جان پہ ترس نہیں آیا، اس وقت ان جابروں پے اللّٰہ کا قہر نازل نہیں ہوا؟

رامز اپنے پیارے پیارے خواب دیکھنے سو رہا تھا۔ اس ننھے جان میں اتنی طاقت ابھی تک نہیں تھی کہ وہ بندوق اٹھا سکتا، وہ معصوم موت کو جانتا تک نہیں تھا کہ تم ظالموں نے اسے کتنی آسانی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہاں رایان کے سامنے اس کے بھائی کو مار کے تم نے اسے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ تم نے اسے واقف کر دیا لفظ دہشت گرد سے۔ وہ یہ بات کھبی نہیں بھولے گا کہ اس کے بھائی کو کس بے دردی سے مارا گیا۔ وہ جب جب جہاں جہاں تم بندوقوں والوں کو دیکھے گا اسے رامز کے قاتل یاد آئیں گے۔

رامز وہ معصوم بچہ تھا جو تین دن تربت کے شہید فدا چوک پے ان حیوانوں کو للکارتا رہا کہ میرا قصور کیا تھا مجھے کیوں مارا گیا؟ وہاں کے بے حس بے ضمیر روحانی طور پے مر چکے ہیں۔ پھر تربت سے مارچ کرتے ہوئے رامز کوئٹہ آ پہنچا۔ دو دن شال میں وہ اپنے لئے انصاف مانگنے آیا اور ساتھ ساتھ ہمیں بھی غفلت سے بیدار کر کے اپنے لیے انصاف لے کے دوبارہ اپنے آبائی گاؤں کے زمین کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ جاتے جاتے وہ ہمیں مزاحمت کرنا سکھا گیا اور خود مزاحمت کی علامت بن گیا(شہید رامز جان)

دوسرا بھیانک واقعہ جو رامز کے کچھ دن بعد پیش آیا کہ انھی خونخوار درندوں نے دو معصوم جانوں کو بے دردی سے مار دیا۔ وہ یہ بات بھول گئے تھے کہ رامز بلوچ قوم کو جگا کر گیا ہے، وہ مزاحمت چھوڑ کر گیا ہے، اس کی مزاحمت ذندہ ہے ابھی تک۔۔

پھر سے انہی دنوں کی دوراہی شروع ہو گئی۔ پھر سے شہید فدا چوک پے دو لاشیں اپنے لئے انصاف مانگ رہے تھے۔ یہ بھی ان حیوانوں کو نہیں جگا سکے اور کوئٹہ کے لیے روانہ ہو گئے اور آج بھی وہ معصوم کوئٹہ کی سردی میں اپنے حق کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔ لیکن یہاں ضمیر مر چکے ہیں۔

آج 15 اکتوبر ہے۔ سات آٹھ دن ہو رہے ہیں ابھی تک وہ بچے انصاف کے منتظر ہیں لیکن ابھی تک انھیں انصاف نہیں مل رہا۔ معصوم لاشوں کو دیکھ کے روح کانپ جاتی ہے لیکن وہ حیوان نہیں کانپ رہیں ہیں جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔

اسی دوران ایک بار پھر ننھی انسہ سے ملاقات ہوئی۔ دوبارہ اس کے ہاتھ میں اپنے جوان بھائی کا بینر دیکھ کر میں سکتے میں آگئی کہ ایک بار پھر آنسہ روڈوں پے دربادری کی ٹھوکریں کھائے گی۔ یا اللّٰہ ابھی تک تو آنسہ اپنے عامر بھائی کے آنے کی خوشیوں سے سیر نہیں ہوئی کہ ایک اور مصیبت آ پڑی۔

مجھے یاد ہے کی میں پہلی بار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں آنسہ سے ملی۔ اس وقت وہ بہت چھوٹی تھی اپنے بھائی کا بینر لیے میرے سنگ بیٹھی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب میرا اور آنسہ سمیت سب کا درد یکساں تھا۔ سب اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے بیٹھے تھے۔ مجھے یاد ہے آنسہ کو دیکھ کے مجھے ہمت ملتی تھی, آنسہ کو دیکھ کر میں اپنا درد بھول جاتی اور سوچتی کہ یہ چھوٹی بچی ہے اس میں لڑنے کی اتنی ہمت کیسے ہے۔

ایک بار پھر آنسہ کے دوسرے بھائی نوید بلوچ کو 11 اکتوبر 2021 کو رات کے اندھیرے میں سی۔ٹی۔ڈی پولیس نے اسکے گھر سے اٹھا لیا تو آنسہ اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے سڑک پر نکلی۔ میری جب بھی آنسہ سے ملاقات ہوتی تو بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں ہوئی۔ یہ وہ بچی ہے جسے ان ظالموں نے ظلمت کا شکار بنا کر بہادر بنایا۔ اب اسے بھی خوف نہیں کسی سے لڑنے کی، اب اسے کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا۔ آنسہ کی جہد رنگ لائی وہ اپنے دونوں بھائیوں کو بازیاب کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

چوتھا منظر جو کے بہت ہی المناک تھا۔ اُمّ ذاکر مجید جو کے 12 سالوں سے اپنے بیٹے ذاکر مجید کی جدائی کا درد سینے میں لے کے جی رہی ہے۔ کس کس در کو اس نے نہیں کھٹکھٹایا لیکن یہ بے حس کسی ماں کا درد کیا جانیں۔ یہ پیدا ہی اسی لیے ہوئے کہ ماں بہنوں کو اذیتیں پہنچائیں۔ بلوچستان کی مائیں اپنے بیٹے انھی کے لیے پیدا کرتے ہیں کہ یہ جب چاہیں بچے اٹھا کے لے جائیں۔ جب چاہیں ان کی مسخ شدہ لاشیں گرا دیں۔

آج جب ذاکر مجید کی والدہ کو سانحہ ھوشاب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے ذاکر مجید کے دوست گلزار دوست کو دیکھ کے ان کی ممتا ریزہ ریزہ ہو گئی۔ اس نے اپنے بیٹے کو گلزار کی شکل میں دیکھا تو وہ ایک بار پھر تڑپ اٹھی اور اسے سینے سے لگایا۔ یہ دردناک لمحہ جو لوہے کو بھی پگھلا سکتا ہے۔ وہاں بیٹھا ہر شخص یہ منظر دیکھ کے خون کے آنسو رویا ہے۔ ارے ظالموں ایک ماں کے درد کو یوں نظر انداز نہیں کرو، 12 سالوں سے ان کی ممتا تڑپ رہی ہے صرف ان کو انکا بیٹا چاہیئے۔ یہاں بلوچستان کا ہر فرد اسٹیبلشمنٹ سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ؛ رامز کو کیوں شہید کیا گیا؟ ہوشاب کے معصوم بچوں کو کیوں شہید کیا گیا؟ ہمارے نوجوان یوں رات کے اندھیرے میں کیوں اٹھائے جا رہے ہیں؟ ذاکر مجید سمیت بلوچ نوجوان بغیر کسی جرم کے کیوں اب تک لاپتہ ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published.