بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تربت زون کا جنرل باڈی اجلاس 12 نومبر کو عطاشاد ڈگری کالج تربت میں منعقد ہوا۔ جس میں ایاز بلوچ زونل صدر اور کیّا بلوچ جنرل سیکریٹری جبکہ سعود بلوچ پریس سیکریٹری منتخب ہوئے۔ نومنتخب زونل کابینہ سے جیئند بلوچ نے حلف لیا۔

رپورٹ: زونل پریس تربت، بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تربت زون کا جنرل باڈی اجلاس بروز جمعہ 12 نومبر کو عطاشاد ڈگری کالج تربت میں زونل آرگنائزر عقیل جلال کی زیرصدارت منعقد ہوا جس کے مہمان خاص بلوچ اسٹوڈنٹس آگنائزیشن کے مرکزی سینئر جوائنٹ سیکرٹری جیئند بلوچ تھے جبکہ اعزازی مہمان جونئیر جوائنٹ سیکرٹری ظفر رند اور مرکزی کمیٹی کے رکن خلیفہ بلوچ تھے جبکہ اجلاس کی کاروائی صدیر بلوچ نے چلائی۔

اجلاس میں  مختلف ایجنڈے شامل تھے جس میں زونل رپورٹ، بین الاقوامی و قومی تناظر، تنظیمی امور اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔

اجلاس کا باقاعدہ آغاز شُہدائے بلوچستان کے یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا۔

بین الاقوامی و قومی تناظر پر بات کرتے ہوئے ساتھیوں نے کہا کہ آج اگر ہم بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں ایک دفعہ پھر عالمی قوتوں کی چپکلش دکھائی دیتی ہے اور عالمی طاقت کا توازن تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ 1989 میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ اکیلا پوری دنیا پر اپنی اجارداری قائم کر چکا تھا۔ عالمی سرمایہ داروں نے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے اس طاقت کو وحشی بنا دیا تھا۔ امریکہ چھوٹے قوموں کو اپنے کلائنٹ ریاستوں کے توسط سے دبا رہا تھا اور سرمایہ دار ممالک محکوموں کی منڈیوں پر قبضہ آور ہو رہے تھے۔ اور ان محکوم اور مظلوم قوموں کی حقیقی آوازوں کو دبانے کیلئے ان کے اندر بنیادپرستوں کو پروان چڑھا کر ان کو اسی طرح زیرِتسلط رکھا گیا۔ ان بنیاد پرستوں کی ذریعے یہ اپنے کلائنٹ ریاستوں کو بیلنس رکھ کر انکو اپنے زیر اثر بھی رکھتے تھے۔ اور دوسری طرف انہی کے توسط سے اپنے جنگی انڈسٹری کو چلاتے تھے۔ یہی تسلسل برقرار تھا کہ نئی صدی کے آغاز سے اس دیومالائی طاقت کے اوپر نصف صدی کے بعد بنیادپرست حملہ آور ہوتے ہیں جس کے فوراً بعد یہ ایک نئے جنگ کا آغاز وار آن ٹیرر کے نام سے کرتے ہیں جس کے بعد ظلم اور بربریت کا ایک نیا تسلسل شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس طرح تیسری دنیا کو مذید غیرمستحکم کردیا جاتا ہے۔

ایک طرف امریکہ اپنی وار انڈسٹری اور مغربی سرمایہ کاروں کے ساتھ ظلم اور بربیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف چائنہ ماؤ ذی تنگ کے کمیونسٹ نظام سے سرمایہ داری میں تبدیل ہورہا ہوتا ہے۔ چائنہ تربیت یافتہ مزدوروں کا ایک گڑھ بن جاتا ہے جس سے دنیا کی ایک بہت بڑی سرمایہ کاری وہاں پہنچ جاتی ہے جس سے اسکی معیشت میں ایک بہت بڑی تبدیلی رونماء ہو جاتی ہے۔ اس تبدیلی سے چائنہ بھی عالمی سرمایہ داری کے مقابلے میں عالمی منڈیوں پر اپنی اجاراداری قائم کرنے کیلئے مقابلہ میں اُتر آتا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر امریکہ سمیت مغربی دنیا کی بڑی طاقتیں حیران ہو جاتی ہیں۔

اب یہ دونوں طاقتیں مختلف طریقوں سے تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے اپنے زیرتسلط لینے کی بھر پور کوششوں میں لگے ہیں۔ ایک طرف چین بی آر آئی کے توسط سے بڑے بڑے منصوبے شروع کر رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے سے تیسری دنیا کو اپنی گرفت میں رکھنے کی کشمکش میں ہے۔ جس سے عالمی سطح پر دونوں طاقتوں میں ایک تفریق قائم ہو چکا ہے۔

اس ساری صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر تیسری دنیا میں بسنے والے چھوٹے قومیتوں کو دیکھیں تو یہ زبوں حالی کے سب سے زیادہ شکار ہیں۔ محکوم اقوام کی لیڈرشپ بھی انہی طاقتوں کے زیراثر آکر اپنے قوم و زمین کی استحصال میں بھرپور شریک ہو رہے ہیں اور اپنے ذاتی و گروہی مفادات کو تحفظ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ جنہیں پھر ایک اجتماعی طاقت کے ذریعے ہی شکست دیا جا سکتا ہے اور اجتماعی مفادات کی ترجمانی قومی تنظیم کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔

بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے اجلاس کے دوسرے ایجنڈے میں تنظیمی امور پر بحث رکھا گیا  جس پر بات کرتے ہوئے ساتھیوں نے کہا کہ جس طرح کے بحرانات ہمیں بین الاقوامی اور انکے کلائنٹ ریاستوں کے اندر دکھائی دیتے ہیں ان سے واضح پیغام ملتا ہے کہ ان حالات کا فائدہ اُٹھا کر تیسری دنیا کے مظلوم قومیتوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی سیاسی تربیت اور کیڈرسازی کو وسعت دے کر ایک تربیت یافتہ قیادت پیدا کریں تاکہ ان بحرانات کا فائدہ اُٹھا کر مظلوموں و محکوموں کے نجات دہندہ بن سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں بحثیت بلوچ ہمارے پاس ایک ایسی درسگاہ بی ایس او کی صورت میں موجود ہے جس نے پچھلے نصف صدی سے مزاحمتی سیاست کے تسلسل کو برقرار رکھ کر ہماری رہنمائی کی ہے اور ہماری ترجمان بنی ہے۔ مگر اس نئے صدی کے آغاز میں عالمی و ریاستی طاقتوں کے بشمول یہاں کی سیاسی اشرفیہ نے مل کر اس درسگاہ کو ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ جس سے یہ درسگاہ کمزور تو ہوا مگر ختم نہ ہو سکا۔ آج پھر ایک دفعہ یہاں کی نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے اور اس کو درست راستے پر لانے کیلئے ہمیں اس درسگاہ کو ایک دفعہ پھر مظبوط و محکم کرنا ہوگا۔ اسکی مضبوطی و محکمی ہی ہماری قومی طاقت و توانائی ہے۔ تو لہذا ہمیں اس درسگاہ کو ایک دفعہ پھر سیاسی نرسری کے طور پر بحال کرنے کی طرف پھرپور کوششیں کرنا چاہیے اور اس کاروان کو آگے لے جانے اور تمام رُکاٹوں کو توڑنے کیلئے بے دریغ قربانیوں کیلئے خود کو تیار کرنا پڑیگا۔

آئیندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے میں مرکزی رہنماؤں کی نگرانی میں زونل کابینہ کی تشکیل کا عمل سرانجام دیا گیا جس کے مطابق ایاز دوست زونل صدر، عقیل جلال سینئر نائب صدر، مسلم بلوچ جونئر نائب صدر، کیا بلوچ جنرل سیکرٹری، قادربخش بلوچ سنئیر جوائنٹ سیکرٹری، صدیر بلوچ جونئیر جوائنٹ سیکرٹری اور سعود بلوچ پریس سیکرٹری منتخب ہوئے۔
 
نومنتخب زونل کابینہ سے بی ایس او کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری جیئند بلوچ نے حلف لیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.