بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بائیسویں قومی کونسل سیشن میں نومنتخب کابینہ کی تقریب حلف برداری کوئٹہ پریس کلب میں منعقد ہوئی۔ نومنتخب چیئرمین چنگیز بلوچ کی کابینہ سے سابقہ چیئرمین ظریف رند نے بی ایس او کا حلف لیا۔

رپورٹ: سیکریٹری اطلاعات، بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا بائیسواں قومی کونسل سیشن بیاد شہید ھانی بلوچ و بنام بی ایس او کے دفاع میں کامیابی سے منعقد ہوا جبکہ 28 نومبر بروز اتوار کو کوٸٹہ پریس کلب میں نومنتخب کابینہ کی ”تقریب حلف برداری و جلسہ عام“ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں بی ایس او کے بانی رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور بزرگ رہنما جناب صوفی عبدالخالق، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے قاٸدین، راجی وومن فورم کے مرکزی رہنما کلثوم بلوچ، سندھ سے آنے والے سندھو اسٹوڈنٹس کاٶنسل کے مرکزی رہنما ساٸیں پرویز سندھو، عوامی نماٸندہ و ھزارہ رہنما جناب عبدالخالق ھزارہ، نیشنل پارٹی کے مرکزی قانونی سیکریٹری راحب خان بلیدی اور سماج کے مختلف پرتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

تقریب کے آغاز سے قبل بی ایس او کے انقلابی ساتھیوں نے بلوچی، براہوٸی اور اردو میں انقلابی گیت گائے اور بلوچ سپوتوں سمیت دنیا بھر کے انقلابی شہیدوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

تقریب کے آغاز سے پہلے شہدائے بلوچستان و شہدائے اںقلاب کے اعزاز میں کھڑے ہو کر دو منٹ کی خاموشی اختیار کی اور پھر تقریب کا باقاعدہ آغاز قومی ترانے سے کیا گیا جسے بی ایس او کے انقلابی ساتھیوں نے بڑی خوبصورتی اور ترنم کے ساتھ گایا۔

بعدازاں بی ایس او کے سابقہ چیٸرمین واجہ ظریف رند نے نومنتخب مرکزی کابینہ و مرکزی کمیٹی ممبران سے حلف لیا جسکے بعد نومنتخب مرکزی چیٸرمین واجہ چنگیز بلوچ نے باقاعدہ طور پر مجلس کی صدارت سنبھال لی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے نو منتخب مرکزی کمیٹی کے رکن حبیب کریم نے کہا کہ اس وقت بلوچ کی کیفیت انتہائی بدتر ہے جو بلوچ کی قومی شناخت، تشخص اور بطور قوم اس کا وجود ہی خطرے سے دوچار ہے۔ پچھلے کٸی دہاٸیوں سے جبر و بربریت، وہشت و درندگی اور قتل و غارت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے جس نے بلوچ سماج کو مکمل تہس نہس کر دیا ہے۔ بلوچ کو منتشر کرنے اور اس کو ختم کرنے کا ہر حربہ آزمایا گیا لیکن بلوچ سماج میں بلوچ سیاست کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ اس کو جتنی بار تتر بتر کرنے کی کوشش کی گئی اتنی ہی بار بلوچ سیاست مختلف پلیٹ فارمز پر پھر بیداری سے بحال ہوتی ہے اور سفر کو لہو لہاں جسم کے ساتھ مزید آگے جاری رکھتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج بلوچ کو اپنے مشترکہ مقاصد اتحاد و جڑت کی انتہائی ضرورت ہے آج اگر بلوچ کا حاکم اسے بلوچ سمجھ کر قتل کرتا ہے تو مقتول بلوچ کو بھی یکمشت ہو کر درندگی کو روکنا ہوگا۔ اور بی ایس او کی نٸی قیادت اتحاد، جدوجہد آخری فتح تک کا علم بلند کیے اسی صدا کے ساتھ آگے بڑھے گی۔

ھرناٸی قومی تحریک کے رہنما نے ھرناٸی کی محرومیوں، اپنی تحریک کے تسلسل اور انتظامیہ کی جبر و مظالم پر بات رکھی۔

سندھ سے آنے والے قوم دوست طلبا رہنما اور سندھ اسٹوڈنٹس کونسل کے مرکزی رہنما ساٸیں پرویز سندھو نے بی ایس او کے نٸے قیادت کی محکوم اقوام کی طرف بڑھنے والی قدم کو سراہتے ہوٸے کہاکہ بلوچ و سندھی صدیوں پرانے ہمسایہ بھی ہیں اور ایک دوسرے کے دوست و ہمنوا بھی ہیں۔ یہ اتحاد جیجا سسٸی، اور واجہ پنہل کے بچوں کا اتحاد ہے۔ اور بلوچ و سندھی سمیت تمام محکوموں کی نجات بھی اسی آپسی اتحاد و جڑت میں ہے۔

بزرگ رہنما اور بی ایس او کے سابقہ بانی رکن صوفی عبدالخالق نے نٸی قیادت کو ان کی ذمہ داریوں پر متوجہ رہنے اور بی ایس او کو ایسے ہی خود مختار رکھنے اور کسی بھی شارٹ کٹ سے باز رہنے کی تلقین کی۔ عالمی استعماروں سے محکوم اقوام و طبقات کے استحصال اور ان کی نجات پر بات رکھی۔

کراچی سے تشریف لانے والی سنگت راجی وومن فورم کی مرکزی جنرل سیکریٹری کلثوم بلوچ نے کہا کہ بی ایس ایک امید ہے۔ اس نے مزید بلوچ سماج میں تنقید، سوال رکھنے، مزید مباحثے کھولنے اور عورت کو سیاسی و سماجی عمل کا حصہ بنانے کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کی۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی مرکزی آرگناٸزنگ باڈی کے رکن گل حسن بلوچ نے بلوچ طلبا تنظیموں کے آپسی اتحاد، برداشت و روادری کی اہمیت و ضرورت پر گفتگو کی۔

بی ایس او کے سابقہ چیٸرمین واجہ ظریف رند نے بی ایس او کے خودمختار حیثیت، بطور کیڈر ساز ادارہ بی ایس او کی اہمیت اور سماج میں اس کے ایک خودمختار کیڈر ساز ادارے کے طور پر کام کرتے رہنے کی ضرورت پر گفتگو کی اور بی ایس او کو یرغمال بنانے والوں کی مذمت کرکے آج کے بلوچ قومی لیڈرشپ کے حقیقی بحرانات پر تفصیلی بات رکھی۔

بی ایس او کے نو منتخب مرکزی چیٸرمین چنگیز بلوچ آج کے جدید عہد میں بلوچ کی بدتر حالت، محکومی اور اس پر ہونے والی جبر و بربریت پر بات رکھی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم ایک نٸی تواناٸی، نٸی طاقت اور نٸے عزم کے ساتھ اپنے طلبا ساتھیوں کی جانب لوٹیں گے، گفت و شنید اور اتحاد، جدوجہد آخری فتح کے انقلابی عَلم کو بلند کرتے ہوٸے بِلا کسی بھڑک بازی اور بڑے دعووں کے عمل کی کوشش کریں گے، تنظیمی عمل کو آگے بڑھاٸیں گے اور بی ایس او کے مشعل کو بلوچ سماج کے اندر روشن کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

آخر میں آشوبی دیوان کا انقعاد کیا گیا جس میں استاد حمید شریف نے بلوچ انقلابی گیت گا کر نوجوانوں کے لہو گرما دیئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.