گوادر تحریک اور قیادتی بُحران

تحریر: حسیب بلوچ

گوادر میں اٹھنے والی حالیہ تحریک نے اس نام نہاد ترقی کا اصل چہرہ جسے عرصہ دراز سے روشن مستقبل اور خوشحال گوادر بیانیہ کی چادر میں جھپائے رکھا تھا اس مصنوعی چادر کو تار تار کیا اور گوادر کا اصل چہرہ جسے اندھیروں میں رکھا تھا اسے گوادر کے عام مزاحمت کار ماہیگیر نے تمام دنیا کے سامنے عیاں کیا اور دنیا کے سامنے واضح کیا کہ اگر گوادر میں کوئی ترقی ہوئی ہے وہ چیک پوسٹس کی ہوٸی ہے۔ اگر گوادر میں بہتری آئی ہے تو عوام پر سخت قسم کے سرویلینس کی ہوٸی ہے گوادر کے عوام سے ان کا سمندر چھینا گیا جس سے ان کا تاریخی رشتہ ہے جس سمندر کے ساتھ ان کی تہذیبی اور شناخت کی جڑیں جڑی ہوئی ہیں جس سمندر نے انہیں کئی سالوں سے زندہ رکھا ان کی بقاء کی جنگ ممکن بنائی کس طرح ترقی اور خوشحالی کے خوشنما نعرے الاپ کر انہیں ان کے واحد زرائع معاش سے محروم کرکے تاریکیوں میں کس طرح عوام دشمن اور سامراجی و استحصالی عزائم پر کارفرما رہ سکتے ہیں۔

تو دوسری جانب ریاست کی طرف سے گوادر کے عام عوام کو ان کی حقیقتوں سے بیگانہ رکھنے کے لیے جو خوف کی زنجیریں ان چیک پوسٹوں اور انتہائی سخت سرویلنس سسٹم کی انویسٹمنٹ کے ذریعے عام شخص کے ذہن پر باندھی گئی تھی یہ ٹوٹ کر بکھر گئی اور عام بلوچ ماہیگیر اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی اس تاریک حقیقتوں سے روشناس ہوا تو اس نے اس سیاسی جمود کی کیفیت کو شکست دے کر یہ طے کرلیا اب ان تاریک راتوں کا روشن صبح میں بدلنا ناگزیر ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ کس طرح عام بلوچ عوام کی امنگوں کو ،ان کی خوابوں کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے اور اس تحریک کو کس طرح ایک روشن سویرے کی جانب گامزن کیا جاسکتا ہے جہاں عام بلوچ ماہیگیر کو ایک پر وقار اور خوشحال زندگی میسر ہو۔

گوادر کے اس حالیہ تحریک نے ایک نئے نام مولانا ھدایت الرحمٰن کو متعارف کرایا جو اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں اور ان کی سیاسی و نظریاتی وابستگی جماعت اسلامی پاکستان سے ہیں یقیناً آج وہ عام بلوچ کا نعرہ مار رہا ہو لیکن اگر جماعت اسلامی کے حتمی منزل کی بات کی جائے تو وہ ایک رجعت پرست اور پرو اسلامک پاکستانی ریاست کی تعمیر ہے اور ہمیں اس امر پر سنجیدہ بنیاد پر سوچنا ہوگا کہ گوادر کے حالیہ ابھرنے والی عوامی تحریک کی یہ تمام تر قوت اس ردانقلابی قوت جو بلوچ سماج کو مذہبی انتہاپسندی کی لپیٹ میں لے کر بطور قوم ہمیں سیاسی طور پر مزید تنزلی کی جانب گامزن کریگی۔

جماعتی سیاست کے لیے بلوچستان میں سیاسی گراؤنڈ میں موجودگی اور ان رجعتی قوتوں کا اپنے لیے گراؤنڈ میں گنجائشیں بڑھانے کی بنیادی وجہ دیگر انقلابی قوتوں کا عوامی پرتوں تک اثر و رسوخ کا نہ ہونا ہے یہی خلاء تھی جس کی بنیاد پر سراج الحق آج گوادر میں اسٹیج پر کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ ریاست نہیں بلکہ یہ سب انڈیا کی سازشیں ہے اور بنیادی مسئلہ یہ ریاستی جبر و استحصال نہیں بلکہ انڈیا ہے ۔

ایک بات تو گوادر کے حالیہ تحریک سے واضح ہوچکی ہے کہ بلوچ قوم آج بھی کسی بھی مقتدر قسم کی قوت کو چیلنج کرنے اور اس کہ خلاف مزاحمت کا الم بلند کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے ۔ اگر کسی چیز کا فقدان ہے تو وہ قومی لیڈرشپ کی جو سماجی تضادات کو سمجھ کر عام بلوچ کےلیے نعرہ مارے اور اس تحریک کو منزل مقصود تک پہنچانے کہ لیے ڈرائیونگ فورس کا کردار ادا کرے۔ لیکن گراؤنڈ میں موجود قوم پرست سیاسی پارٹیاں آج عام بلوچ کو خیر آباد کہہ کر اپنی سیاست ٹھیکوں کی سیاست اور ذاتی مفادات کے بندر بانٹ تک ہی محدود کر چکے ہیں۔

اب اس دربدری کی کیفیت میں بلوچ عوام جو اس طرح کی سیاسی چھتری سے محروم تھے جو بزگر ، ماہیگیر اور عام بلوچ کی معاشی مفادات ان کے جان ومال اور قومی وقار و عزت کا دفاع کرتی تو متبادل لیڈرشپ نہ ہونے کی وجہ سے عام عوام نے بے بسی کی حالت میں مولانا ھدایت الرحمٰن کا ہاتھ تھاما اور ان کی قیادت کے پیچھے چل پڑے۔ لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا عوام نے نادانی کی حالت میں مولانا کے قیادت کو تسلیم کیا ؟

اس چیز کا اندازہ تحریک کہ شروعاتی دنوں میں جو بنیادی نعرہ یا مطالبات تھے اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے وہ تمام تر مطالبات گوادر کے عام بلوچ آبادی کے مسائل کے گرد گھومتی ہیں تو عام بلوچ نے مولانا کی قیادت کو اس وجہ سے تسلیم کیا کہ انہوں نے ان کا نعرہ بلند کیا ۔ لیکن اب حالیہ کچھ دنوں سے جس طرح دھرنے کو پرو اسٹیبلشمنٹ پارٹی جماعت اسلامی پاکستان کے لیے بطور لانچنگ پیڈ استعمال کیا جارہا ہے اس کے نتائج مستقبل میں بلوچ قومی سیاست کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں اور اس امر کے ممکنات ہیں کہ اس تحریک کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا کر اسے رجعتی عزائم کے پیچھے لگایا جائے اور نتائج کا اندازہ ہم اپنے ہمسایہ ملک افغانستان سے لگا سکتے ہیں کہ سامراجی عزائم کی پشت پناہی میں کس طرح افغان عوام کی زمین کو مذہبی شدت پسندی کے گڑھ میں تبدیل کر کے انہیں ان کی تہذیبی جڑوں سے کاٹ کر ان سے ان کی قومی یاداشتیں چھین کر انہیں بطور قوم اس بقاء کی جنگ میں بیگانہ و اپاہج کر دیا تو ان تمام خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان میں موجود رجعتی قوتوں کے حوالے سے بطور قوم ایک واضح موقف رکھنا ہوگا۔

ان رجعتی نعروں کا بلوچ سرزمین پر بلند ہونا اس چیز کو واضح کرتا ہے آج بلوچ سیاست میں سب سے بڑا بحران متبادل انقلابی قومی لیڈرشپ کا ہے اور ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس متبادل ادارے کی تعمیر پر مرکوز کرنا چاہیے وگرنہ اس خلاء کو یوں ہی ریاستی ایجنڈے پر کارفرما سیاسی قوتیں ہی پُر کرتی رہیں گی اور بلوچ شناخت پر پے در پے حملے ہوتے رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.