ثقافت منانا ہر زندہ قوم کا بنیادی حق ہے. سندھی طلبا پر ثقافتی جشن منانے پر غداری کے مقدمے محکوم اقوام سے نفرت کی غمازی کرتی ہے۔ مرکزی ترجمان بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ سندھ یونیورسٹی میں سندھی کلچر ڈے کی مناسبت سے انعقاد کیے گئے ثقافتی جشن کی پاداش میں طلبہ پر بغاوت کا پرچہ کاٹنا محکوم اقوام کے ساتھ تاریخی زیادتیوں کا تسلسل ہے۔

مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ قومی شناخت اور ثقافت قوموں کی یاداشت ہوتی ہے اور بزور طاقت محکوم اقوام کو ان کی جڑوں سے کاٹنا حکومتی اداروں کی محکوم اقوام کی شناخت سے نفرت کا کھلم کھلا اظہار ہے۔ محکوم اقوام سے اگر اسی طرح نفرت انگیز رویوں کو برقرار رکھا جائے گا تو محکوم اقوام میں ریاست کے حوالے سے اجنبیت کے احساس کو مزید تقویت ملے گی۔ ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینا انسانی تہذیب کے بنیادی اقدار میں سے ہے۔

آج پسماندہ خطے کی اکثریت نوجوان آبادی نشے اور دیگر منفی سرگرمیوں کی جانب بڑھ رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ غیر نصابی سرگرمیوں کی کمی ہے. نوجوانوں کو نہ یہاں اچھا لیٹریچر میسر ہے، نہ ہی تھیٹر اور سینما جیسے فنون تک رسائی ہے. یہاں تک کہ موسیقی اور رقص جیسی خوبصورت تہذیبی سرگرمی بھی ممنون ہوچکی ہے۔

حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کو ایسے مواقع فراہم کرے جو ان کی زہنی آبیاری اور کرداری کشادگی کا باعث بنے. ریاست ایسے مثبت اعمال کو یکسر نظرانداز کرتی آئی ہے، جس کی وجہ سے آج مذہبی انتہا پسندی عروج کو پہنچ چکی ہے. ستم ظریفی یہ ہے کہ نوجوان خود جب ایسی سرگرمیاں ترتیب دے تو ان پر غداری کے الزامات لگائے جاتے ہیں جو حکومت کے غیر مہذب رویے کو آشکار کرتی ہے۔

آخر میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے سندھی طلباء سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ فی الفور سندھی طلباء پر کاٹے گئے بغاوت کے پرچے واپس لیے جائے. بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں مذید مواقع فراہم کیے جائیں. بی ایس او فنون لطیفہ کو فروغ دینے پر سندھی طلبا کو سلام پیش کرتی ہے اور ثقافت کے تمام پہلوؤں کے فروغ کی داعی ہے.

Leave a Reply

Your email address will not be published.