تباہ کُن سکوت

تحریر: ثنا بلوچ

سنا تھا ڈیرہ غازی خان کے لوگ بہت ہی مزاحمت کار ہوتے ہیں، وطن پرست، قوم دوست اور ظلم پر آواز بلند کرنے والے ہوتے ہیں۔ سچاٸی بھی یہی ہے کہ انہوں نے ماضی میں اس دھرتی کے لیے بھوکے بیٹ جنگ کی اور ایوبی آمریت کو للکارا اور اتنے مزحمتی لوگ کہ جب یہاں کے وطن زادوں پر غداری کا مقدمہ درج ہوا تو مختلف شہروں سے انہیں گرفتار جیل بھیج دیا گیا اور ہنس کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ شہداء نے اپنے خون بہا کر یہاں وطن زادوں کو ایک عظیم راستے پر چلنے کا درس دیا یہاں کے لوگوں نے بس کچھ عرصہ تک انہیں لوگوں کی قربانیوں یاد کی۔ ا

کثر ہم سنتے آرہے ہیں کہ جب 1967کے اندر کوہ سلیمان تھلہ تھوخ میں جنگ شروع ہوئی تو یہاں کے لوگوں نے ہمت اور جرأت کے ساتھ دشمن کے ساتھ مقابلہ کیا اور اب اسی دھرتی پر سردار اور جاگیر مفاد پرست ٹولے نے ایک دکان کھول رکھا ہے چھوٹے موٹے مفادات کی خاطر اپنے دھرتی کا سودہ کرنے لگے ہیں آخر وہ اس مشن میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن وہ تو مفاد پرست تھے انہوں نے شروع دن سے دھرتی ماتا سے غداری کی لیکن آج کی خاموشی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہم سب انہی سرداروں کی نقش قدم پر چل رہے ہیں اس وقت ہمیں بلوچستان سے جدا کیا گیا لیکن ہم سے ہماری قومی زبان بلوچی چھیننے کی کوشش کررہا ہے ہماری ثقافت و کلچر کو مسخ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور ہمیں سرائیکی و بلوچ پر تقسیم کررہا ہے۔

ریاستی مشینری تیزی سے ہمیں تقسیم کی میں مصروف عمل ہے اب اس کے لیے ہمیں اپنی شاندار ماضی کو یاد کر کے روشن مستقبل کےلیے بیدار ہونا ہوگا۔ ہمیں ان شہداء کی قربانیوں کو یاد کرنا ہوگا۔ 7 دسمبر کے دن سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے سے بہتر ان شہیدوں کے سوچ اور نظریہ کو زندہ رکھنا ہوگا اس عمل کریں ورنہ یہ خاموشی ہمیں لے ڈوبے گی۔ ہم اپنی شناخت، اپنی زبان، اپنی ثقافت اور وطن سے کاٹ دیے جاٸیں گے۔ تب ہمیں ریوڑوں کی طرح ھانکا جاٸے گا اور ہم مویشی بن کر چلتے بنیں گے۔ یہ تباہ کُن اجتماعی سکوت ہمیں تہس نہس کر دے گا، ہماری جڑیں کھوکھلی ہوجاٸیں گی اور ہم کہیں کے نہیں رہ جاٸیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.