لسبیلہ یونیورسٹی اوتھل میں طالبات کے ساتھ گرلز ھاسٹل اتنظامیہ کا قابل مذمت متعصبانہ اور جابرانہ رویہ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل جیسا سانحہ جنم دے سکتا ہے. بی ایس او اوتھل زون

ترجمان: بی ایس او اوتھل زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن اوتھل زون کے ترجمان نے اپنا مذمتی بیان جاری کرتے ہوٸے کہا ہے کہ لسبیلہ یونیورسٹی اوتھل میں آئے دن طالبات کو ہاسٹلز میں بے جا بندشوں اور غیر اخلاقی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کی وجہ سے طالبات کافی پریشانی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، یونیورسٹی انتظامیہ کا اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی اقدام اور مثبت پیش رفت دیکھائی نہیں دیتا، باوجود اس کے کہ کئی بار انتظامیہ کو ان تعصب و تفریق پر مبنی بے ہودہ رویوں اور حرکتوں کے حوالے سے مطلع کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس بے جا بندشوں اور انتظامیہ کے سکیورٹی اہلکاروں کی غیر اخلاقی رویو میں اضافے دیکھا جا تا ہے اور ان میں کمی قطعاً نہیں ہوتی۔

انتظامیہ کے ایسے ہی پابندیوں، جبری اعمال اور بندشوں کی وجہ سے بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل جیسا شرمناک واقعہ ہوا اور انتظامیہ اس اسکینڈل سے سبق حاصل کرنے کی بجاٸے الٹا ان ہی رویوں میں شدت لا رہی ہے۔ انتظامیہ کی ایسی بدمعاشیاں کسی سانحہ کو جنم دے سکتی ہیں۔

زونل ترجمان نے کہا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں بہت ہی کم طالبات یونیورسٹی لیول تک پہنچ پاتی ہیں اور اس پر بھی تعلیمی اداروں کے انتظامیہ ان طالبات کو مسلسل زہنی دباٶ کا شکار بنا کر نِت نٸے طریقوں سے پریشان کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایک طرف ہاسٹلز جیسی سہولیات طالبات کو میسر ہیں، لیکن ہاسٹل ایک قید خانے سے قطعاً کم نہیں۔ جہاں ان کو صبح آٹھ بجے سے تین بجے تک کلاسز کے لیے باہر جانے دیا جاتا ہے اور پھر چھے بجے ان کو قید نما ہاسٹل میں بند کیا جاتا ہے۔ چین کی سانس تک وہ اپنی مرضی سے نہیں لے سکتے اور نہ ہی کسی قسم کی ایکٹویٹی کر سکتے ہیں جب کہ تعلیم، اظہار سیاست اور نقل و حرکت انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اور یہ جابر انتظامیہ ان بنیادی انسانی حقوق پر بھی قدغن لگانے میں مصروف عمل ہے۔

پدرشاہی سماج میں طالبات کو انسان ہی سمجھا جائے تو بہت ہے لیکن اس کے بر عکس ھاسٹل انتظامیہ ان پر پابندیاں عاٸد کرنے اور انہیں قیدی بنانے میں مصروف عمل ہے۔ ایسی بندشیں اور پابندیاں کسی بینا انسان کو نابینا بنانے، سننے والے کو بہرا بنانے اور ایک بولنے والے کو ان چار سالوں میں بولنے ہی نہ دینا سماج میں صرف اندھے، گونگے اور بہرے ہی پیدا کرنے کے مترادف ہے اور یہ ظلم لوامز ہاسٹل میں رہائش پذیر طالبات کے ساتھ انتظامیہ کی طرف سے روا رکھی جا رہی ہے۔

اس کی مثال حال ہی میں گرلز ہاسٹل میں طالبات کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے، جہاں گرلز ہاسٹل میں روز کی پابندیوں اور بے جا سوالات سے طالبات کو نہ صرف تنگ کیا گیا بلکہ ان کے ساتھ سیکیورٹی گارڈ تک بد تمیزی کرنے سے نہیں کتراتے۔

حال ہی میں طالبات کو اس بات پر ھاسٹل سے باہر بطور سزا رکھا گیا کہ یہ طالبات امتحانات کی بدولت 15 منٹ دیر آنے پر ہاسٹل سے باہر سزا کے غرض سے روکا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ، ہاسٹل سکیورٹی کی جانب سے یہ عزر پیش کیا گیا کہ وہ لوگ گیٹ بند ہونے سے 15 منٹ دیر اور چھ بجے کے بعد آئے ہیں، جس کے بعد سیکیورٹی اور ہاسٹل وارڈن کی طرف سے سخت دھمکیوں اور غیر اخلاقی رویے اپنا کر ان کو سزا دی گئی۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

ترجمان نے کہا کہ لسبیلہ یونیورسٹی انتظامیہ 15 سالوں سے ترقی کی راگ الاپتے ہوئے نہیں تھکتی ، جہاں جدید دور کے انفراسٹرکچر، نئی سڑکیں، اونچے امارات، خشک میدانوں کو سبزہ زار میں تبدیل کر نے کےلیے کوٸی کسر نہیں چھوڑی ہے، لیکن ادارے کے اہم ستون طلباء اور طالبات ہیں جن کو شاذ و نادر ہی ترقی کا حصّہ بنایا جاتا ہے۔ اور طالبات کو خاص کر ایک الگ ہی مخلوق تصور کیا جاتا ہے اور اکثر انہیں انسانی سماج سے دور رکھا جاتا ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے یہ جانبداری اور ان کو کم از کم ادارے کے چار دیواری تک آزاد نہ چھوڑنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

ادارے کی جانب سے طلباء کو کو اسکالرشپس پر اندرون اور بلوچستان تو کبھی پاکستان بھر میں تفریح کے لیے لے جایا جاتا ہے، لیکن ان میں طالبات کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، 6 ہاسٹلز جن میں پانچ میل طلباء کے لیے اور ایک فیمیل طلباء کے لئے مختص کی گئی ہے، اور اس ایک ہاسٹل میں طلباء کو سکھ کی سانس تک لینے کی آزادی نہیں ملتی۔

یونیورسٹی کے اندر مختلف پروگرامز کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں بک اسٹال، مختلف قوموں کے ثقافتی دن، عالمی دنوں کے مناسبت سے پروگرامز تشکیل اور کھیل کود کے ایکٹویٹیز ہوتے ہیں لیکن ان میں طالبات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، ان تمام معاملات کی وجہ انتظامیہ کی جانب سے کھینچی گئی پابندیوں کے غیر فطری لکیریں، غیر اخلاقی رویے، اور تصوراتی حفاظتی خدشات ہیں۔ انتظامیہ نے ایک تعلیمی ادارے کو بھی طالبات کےلیے قید خانہ بنایا ہے۔

یہ ایک فطری عمل ہے کہ، ایک جھوٹ کو چھپانے کےلیے میں ہزارہا جھوٹ بولے جاتے ہیں، اپنی عورت دشمن رویوں، طالبات پر جبر اور اس گھناٶنے چہرے کو چھپانے کےلیے سالوں سے چلی آرہی تبدیلیوں، تعمیرات کا شوشہ، مختلف ٹھیکیداروں کو اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب رہا ہے۔ لیکن شعوری طور پر فیصلے کرنے والے طلباء وطالبات کو اپنے طرف شاذونادر ہی مائل کرسکا ہے، ہزاروں کی تعداد میں ادارے میں زیر تعلیم طلباء کو مطمئن نہیں کر سکا، جن کے سامنے ساری حقیقت واضح طور پر عیاں ہے۔

لسبیلہ یونیورسٹی میں سالانہ طلبا و طالبات کی ایک اچھی خاصی تعداد داخلہ لیتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ایک اچھی خاصی تعداد ڈگریاں حاصل کرکے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔ بی ایس (BS) جیسی ایک طویل پروگرام جو کہ چار سالوں پر محیط ہے، ایک طالب علم ان چار سالوں کے دورانیے میں ایک الگ قسم کی جدجہد میں لگا ہوا ہوتا ہے۔ اور اس جدجہد کی پہلی کڑی ہاسٹل سے شروع ہوتی ہوئی یونیورسٹی کے اندر اور پھر ایک کھلے سماج تک اس کی کڑیاں وسعت اختیار کرتی ہیں۔ ہاسٹل میں ایک کمرہ مل گیا تو چار سالوں کا جو چالیس فیصد بوجھ ہے وہ ہلکا ہوجاتا ہے اور باقی ساٹھ فیصد یونیورسٹی کمر توڑ مشقت سے پوری کرتی ہے۔ اور جہاں طالبات ہاسٹلز سے ہی ٹارچر سیل جیسی احساسات سے واقفیت رکھتے ہوں تو وہ خوامخواہ باقی معاملات میں بھی مشقت اور اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

آج کل سیاست و سماجی رجحانات کو اس نام نہاد ازاد معاشرے میں لعنت سے موسوم کیا جاتا ہے، ادارے کے اندر جہاں کہیں بھی مجمع نظر آتا ہے تو ادارہ حرکت میں آجاتا ہے اور سیکریٹ ایجنٹس کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہر گیٹ پر کھڑا چوکیدار موبائل پر ویڈیو بنا رہا ہوا ملتا ہے، جو کہ رعب اور دبدبہ جمانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

اس گھٹن زدہ ماحول کو برقرار رکھنا ادارے کے لیے انتہائی اہم ہے تاکہ وہ طلباءوطالبات کو اتنا ہی آکسیجن فراہم کرے جتنا کہ ان کے پھیپھڑے کام کرنا نہ چھوڈ دیں۔ ادارے کے اس عمل سے خودپرستی کا رجحان بڑھتا ہے اور معاشرے سے جو ایک فرد کی جڑت ہے وہ ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ اور معاشرے اس عمل سے خوامخواہ متاثر ہوتے ہیں۔

جب ایک طالب علم لوامز کے سبز میدانوں، وسیع ترین امارات کے پھیلاؤ، اور سیاہ سڑکوں اور سورج کی تیز شعاؤں کی تپش، ہاسٹلز میں گھنٹوں پڑے رہنے اور اساتذہ کی بے جا دھمکیوں سے جب ایک ہی سال میں تنگ آجاتا ہے تو اپنے آپ کو کوسنا شروع کر دیتا ہے اور آنے والے تین سالوں کو اپنا مقدر سمجھ کر ضاٸع کر دیتا ہے۔ اور اپنی مقدر آپ لکھنے والے تو اُڑ جاتے ہیں ایک نئی آزمائش میں چھلانگ لگانے کے لیے کسی اور یونیورسٹی۔ اور یہ ایک مشترکہ مسئلہ ہے جو موجودا ہر تعلیمی ادارے میں طلباء و طالبات کو پیش آتا نظر آتا ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ کیا ادارہ انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ طلباء وطالبات کے بیچ تعلیمی معیار کے بہتر بنانے اور انکو ایک ازاد اور کھلی سماج میں سانس لینے کیلے اقدامات نہیں اٹھا سکتی؟ کیا طالبات کو ہاسٹلز میں قید کرنا، ان کی سماجی آزادی سے خطرہ محسوس کرنا اور معاشرے کے ایک اہم ستون کو بے جا بندشوں اور سخت زنجیروں میں باندھنا ایک نیک شگون عمل ہے؟ ہر گز نہیں، اگر ادارے ایسی سوچ رکھتے ہیں اور ان کی فروع کے لیے کار فرماں ہیں تو ان کی بھول ہے، آج آوازوں کو دبانا اور انہیں محدود دائروں میں بند رکھنا کا نا ممکن ہے۔ اور بی ایس او ان رویوں کے خلاف ہمیشہ سے سینہ سپر رہی ہے۔ اور آٸندہ بھی طلبا پر ہونے والے ہر جبر کے خلاف بی ایس آواز اٹھاتی رہے گی۔

طلباء و طالبات اداروں کی جانب تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، اور دوسری طرف تعلیمی نظام دن بہ دن بدترین ہوتا جا رہا ہے اور خاص کر طالبات پر اداروں کے اندر اور ہاسٹلز میں انتظامیہ کی جانب سے تنگ کرنا، مزید تعلیم سے دوری کی طرف لے جاتا ہے۔ ڈیپارٹمنٹل کلرکس کے رویوں سے لے کر ایڈمن میں بیٹھے جی حضوری کرنے والوں تک کا رویہ طلباء کے ساتھ آمرانہ ہے۔

زونل ترجمان نے کہا کہ لسبیلہ یونیورسٹی کو چاہیے کہ تعلیمی نظام میں اور طالبات کے رہائش کے حوالے سے اصلاحات لائے جاٸیں تاکہ طلباء وطالبات جب چار سال بعد ادارے سے صرف کاغذ کی ڈگری اور اونچے اور خوشحال امارات کی تعریف نہیں بلکہ ایک سلجھے ہوٸے آزاد باشعور شخص بن کر اپنے معاشرے میں ایک مثال بن کر جاٸیں۔ اور معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے ایک مشعلِ راہ بن جائیں جو کم از کم چار کو تو اس غیر منصفانہ سماج میں نجات دلا سکے۔ یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب طالبات کے ساتھ ایک انسان نما برتاؤ اور سلوک عمل میں لایا جائے گا۔

زونل ترجمان نے کہا بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون طالبات کے ساتھ اس غیر اخلاقی اور غیر انسانی سلوک کی پرزور مذمت کرتی ہے اور متعلقہ ادارے پر واضح کرنا چاہتی ہے کہ اوتھل یونیورسٹی طلبا و طالبات کی ملکیت ہے جس کے مالک وہاں پڑھنے والے طلبا و طالبات ہیں اور ان طلبا کی ہی بدولت انتظامیہ تنخواہیں بٹورتی ہیں۔ ہم انتظامیہ پر مزید واضح کرنا چاہتے ہیں گرلز ھاسٹل کسی سردار و نواب کا جرگہ نہیں کہ جس میں جس کا جو مرضی چاہا خواتین پر اپنی مرضی کی کوٸی پابندی لگا دی بلکہ یہاں پڑھنے والے طالبات شعور یافتہ انسان ہیں جو اپنی آزادی کےلیے لڑنا اور انتظامیہ کی جبر و پابندیوں کو توڑنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ بی ایس او ایک بار پھر طالبات پر لگاٸے گٸے پابندیوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور انتظامیہ کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر جلد از جلد اپنا قبلہ درست نہیں کیا تو پھر بی ایس او جمہوری لڑاٸی و احتجاج کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.