بلوچ طلبا کی جبری گمشدگی بلوچستان میں ایک انسانی بُحران جنم دے چکا ہے، طلبا کی جبری گشدگیوں کو بند کیا جاٸے: بی ایس او

مرکزی ترجمان: بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے بلوچستان میں جبری گمشدگیاں ایک انسانی بحران جنم دے چکی ہیں، ماوراٸے آٸین گمشدگی کی حالیہ لہر نے اس انسانی بحران کو مزید بڑھایا ہے، مقتدرہ قوتیں آٸین و قانون کو پیروں تلے روند کر طلبا کو لاپتہ کر رہے ہیں جو کہ تشویشناک ہے۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ طلبا کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ آٸے دن انہیں حیات بلوچ کی شکل میں ماوراٸے آٸین قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر قاٸد اعظم یونیورسٹی کے ایم فِل اسکالر حفیظ بلوچ کی شکل میں انہیں جبری گمشدگی کا شکار بنا کر اذیت خانوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ بلوچستان کی آبادی ویسے بھی کسی گنتی میں نہیں آتی اور ایسے جبری گمشدگی کی پالیسیاں نسل کشی کے زمرے میں آتی ہیں۔

بی ایس او کے مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ ایم فِل اسکالر حفیظ بلوچ سمیت اگر کسی طالب علم نے آٸین و قانون کی رو سے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے تو انہیں اپنے ہی آٸین و قانون کے تحت عدالتوں میں پیش کیا جاٸے۔ لیکن بلوچستان کے کَرتا دھرتا از خود آٸین و قانون کو روند کر کسی بھی شہری کو لاپتہ کرنے سے ھچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتے اور خود کو دیدہ دلیری سے آٸین و قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ بلوچ طلبا کو لاپتہ کرنا فقط آٸین و قانون کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ایک نوجوان کو لاپتہ کر کے اس کے والدین، بہن بھاٸی اور دیگر دوست احباب کو بھی اجتماعی سزا کا شکار بنا دیا جاتا ہے. جو کہ عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی سرا سر خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں شرح نا خواندگی پہلے ہی ستر فیصد سے زیادہ ہے جب کہ بلوچ طلبا کو اس طرح گمشدگی کا شکار بنا کر مزید جہالت اور ناخواندگی کو بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک طرف دنیا بھر میں ریاستیں اپنے شہریوں کا تحفظ کرتی ہیں جب کہ بلوچ طلبا اپنے ہی وطن میں جبری گمشدگیوں کے باعث ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے خوف و ہراسانی کا شکار ہیں۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں اٹھاٶ غاٸب کرو کی جاری پالیسی سے جنم لینے والی انسانی بحران کو حل کرنے کےلیے لازم ہے جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو فوری طورپر بند کیا جاٸے اور حفیظ بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کو آٸین و قانون کی پاسداری کرتے ہوٸے جلد از جلد منظرِ عام پر لایا جاٸے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.