جابر حکام اور تادم مرگ بھوک ہڑتال

تحریر: سازین بلوچ

سانسیں نکل رہی ہیں، یہ بات کہنا تو دور سوچنے سے بھی دم گھٹنے لگتا ہے لیکن حق اور سچ کے سامنے حقوق لینے کی خاطر یہ سانسیں ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں ہمارے نوجوان تاکہ یہ سنگ دل اور بے حس حکمرانوں کو ترس آئے اور وہ اپنے ان غیر انسانی رویوں پر غور کریں ۔ تا دم مرگ بھوک ہڑتال بغیر تشدد اور خاموش احتجاج کا وہ stage ہے جس کے سامنے بس ایک ہی راستہ ہے وہ ہے حقوق یا پھر موت۔

کبھی ہم نے اس بات پہ غور کیا ہے کہ عوام تا دم مرگ بھوک ہڑتال پر کیوں بیٹھتے ہیں ! جب کہ حکمرانوں کو تو ہمارے جانوں سے کوئی واسطہ نہیں وہ تو ہمیں روز خود مرنے کے لیے ہی چھوڑتے ہیں۔ تو ہم کیوں مرنے کے لئے ان بے حس لوگوں کے سامنے تیار ہوتے ہیں کہ آؤ ہم مرنے کے لئے تیار بیھٹے ہیں۔ بہت سے لوگ اس عمل کو سمجھتے نہیں اور اپنے زاویے سے دیکھ کر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں۔

لیکن اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ یہ دھتکارے ہوئے عوام جنہوں نے ہزاروں لاشیں اٹھائی ہیں وہ بھوک ہڑتال کا سب سے کٹھن راستہ ان حکمرانوں کے لیے نہیں چُنتے کہ وہ ہمارے حقوق دیں گے بلکہ وہ یہ راستہ اس لیے چُنتے ہیں تاکہ تاریخ میں ان نااہل اور استحصال کرنے والے حکمرانوں کی بے حسی آئندہ آنے والی نسلوں کے سامنے ہو اور وہ نسل ہماری طرح کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہو کہ ریاست ماں ہوتی ہے ۔ وہ بھی یہ بات جان لیں کہ ہاں ریاست ماں ہی ہے لیکن سوتیلی ماں ہے جن کی محبت دکھاوے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ جب نام ریاست کا آ جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس میں بسنے والے تمام لوگ چاہے وہ کسی بھی منسب پر فائز ہوں وہ عوام کا نماٸندہ کبھی نہیں بن سکتے۔ ہاں وہ اس طبقے کی نماٸندگی ضرور کرتے ہیں جس طبقے کے ہاتھ میں یہ پرتشدد ادارہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ بلوچستان پولیس کا رویہ ان طلبا کے ساتھ دیکھیں وہ محکوم طبقے سے ہو کر بھی نماٸندگی مسلط حاکم طبقے کی کرتے ہیں اور ان ہی کے مفادات کی حفاظت کےلیے ہم پر تشدد کرنے اور ہماری جان لینے سے بھی نہیں کتراتے۔

تمام ممالک میں عوام اپنے حقوق کے لئے مختلف طریقوں سے احتجاج کرتے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑتے ہیں۔ پہلی دنیا کے لوگ ووٹ کے حق کے لیے دوسری دنیا کے لوگ اپنے comfort zone ,کو برقرار رکھنے کے لیے جب کہ تیسری دنیا کے لوگ زندہ رہنے کے بنیادی سہولیات کے لئے احتجاج کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جب حکام بالا نہ سننے کی ٹھان لیں تو عوام آخری راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اور وہ راستہ آنے والی نسلوں کو زندہ رکھنے کے لیے مرنے کا راستہ، مطلب تا دم مرگ بھوک ہڑتال کا راستہ۔

دنیا میں بہت سے ممالک میں لوگوں نے اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے بھوک ہڑتال کا راستہ اختیار کیا مثلاً فلسطین، ترکی، ہندوستان، پاکستان، برطانیہ، امریکہ، بیلجیم، چین اور بہت سے ایسے ممالک ہیں جن میں محکوم عوام نے حقوق حاصل کرنے کے لیے بھوک ہڑتال کا راستہ اختیار کیا جن میں کچھ نے اپنی جانیں گنوائی، تو کچھ نے حکام بالا کو جھکنے پر مجبور کیا۔ ان میں سے اولین بھوک ہڑتالی سلسلہ بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں سمیت 1929 میں جیل میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ قابض انگریز حکام کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کیا، جو 116 دنوں تک جاری رہا اور اسی طرح سیاسی احتجاجات میں بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع ہوا جس میں لمبے عرصے تک چلنے والی بھوک ہڑتال ہندوستان میں ہرم چانو شرمیلہ جو انڈین سیول رائٹس ایکٹیوسٹ رہی ہیں، نے کیا۔ انہوں نے Armed Forces Special Powers Act کے خلاف سن 2000 سے بھوک ہڑتال شروع کیا اور 16 سال (500 ہفتے) تک بھوک ہڑتال جاری رکھا اور , ترکی میں لفٹسٹ ترکش فولک میوزک بینڈ گروپ یارم والوں کے انقلابی بینڈ پر پابندی لگنے کے خلاف 17 مئی 2017 کو ان کے ممبران جیل کے اندر اور باہر بھوک ہڑتال پر بیٹھ گٸے۔ جن میں سے “یلین بولک جو کہ 288 دنوں کے بھوک ہڑتال کے دوران 3 اپریل 2020 کو فوت ہوئے ، ابراھم کوکسک 7 مئی 2020 کو 232 دنوں تک زندہ رہ سکے جب کہ مصطفی کوسک جو کہ ترکش جیل کے اندر 297 دنوں کے بھوک ہڑتال کے دوران فوت ہوگئے۔

1980 میں سات آٸرش قیدی بھوک ہڑتال پہ بیٹھ گئے جو 53 دنوں تک چلتا رہا اور بالآخر ختم ہوگیا لیکن 1981 میں آئرش ری پبلکنز نے جیل میں قیدیوں کے وردی نا پہننے اور اسپیشل کیٹگری اسٹیٹس کو ختم کرنے کے لئے بھوک ہڑتال کیا جس کی سربراہی ان کے رہنما بوبی سینٹس نے کیا اور یہ بھوک ہڑتال بوبی سمیت دس اور ممبران کے مرنے پر ختم ہوگیا۔

دنیا میں ایسے کٸی ممالک ہیں جہاں ایسے مختلف بھوک ہڑتالی احتجاجات کئے گئے اور آج بھی ایسے احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے جو پاکستان اور بلوچستان کے اندر بھی مسلسل اپنے حقوق لینے کے لیے کیے جاتے ہیں، اگر بلوچستان کی بات کریں تو بلوچستان کی سڑکیں کبھی خالی نہیں ہوتیں۔ ان پر ہمیشہ احتجاج کرتے عوام نظر آتے ہیں کبھی ریلیوں کی شکل میں کبھی کیمپ میں بیٹھے تو کبھی ریڈ زون میں حاکموں کے در پر بیٹھ کر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔

بلوچستان میں سب سے لمبا بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے والے واٸس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر بلوچ ہیں جنہوں نے 2009 کو یہ کیمپ لگایا اور ماما قدیر مسلسل بیمار ہونے کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی کےلیے اس کیمپ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں اور بھی بے شمار بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے گئے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا تا دم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ بلوچستان کے نوجوان لطیف جوہر نے اپنے ساتھیوں کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے 2014 کو لگایا جس میں وہ 45 دنوں تک بیٹھے رہے۔ ہزارہ کمیونٹی کی مسلسل نسل کشی کے خلاف ہزارہ کمیونٹی نے بھی 2018 کو بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا، بولان میڈیکل کالج کو بچانے کی خاطر طلباء نے بھی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے لیکن حکام بالا ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

حال ہی میں بلوچستان کے تین میڈیکل کالجز کے طلباء کو رجسٹرڈ نہ کرنے کے خلاف طلباء 76 دنوں سے سراپا احتجاج ہیں اور اس نظام سے تنگ آکر ان میں سے پانچ طلباء نے 10 فروری کو بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کا اعلان کیا اور آج بھی وہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں جن پر حکام بالا نے تشدد بھی کیا لاٹھی بھی برسائے مگر انہیں اپنی نا اہلی کا احساس ہرگز نہیں ہوا۔

تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھنے والے طلباء نے واضح انداز میں کہا ہے کہ ان کو اگر کچھ بھی ہوا تو اس کی ذمہ داری بالادست حاکم طبقہ اور ریاست پر ہوگی۔ یہ ریاست ہے جنہوں نے ہم سے لاتعلقی کا اظہار واضح انداز میں کیا ہے لیکن یہ فاشسٹ حکمران اب بھی خاموش ہیں اور تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ، دھونس دھمکی، پولیسی گیری، جبری گمشدگی، لاٹھی چارج کو ان مسلط حکمرانوں نے بلوچ طلبا کی تقدیر بنا رکھی ہے۔ مگر باہمت طلبا اس تمام تر جبر و درندگی کے باوجود اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار نہیں ہونے والے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ جبر و وحشت اور پولیس گردی کے قاٸل یہ حکام پر امن جمہوری احتجاج کو کسی کھاتے میں نہیں لاتے مگر انہیں یہ بھی معلوم ہے روشن سویر اور جبر و بربریت سے نجات کا راستہ یہیں سے ہو کر جاتا ہے تبھی ان باہمت طلبا نے تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ کا چناٶ کیا ہے۔ یقیناً فتح و مسرت ان دلیر جہد کاروں کے پیر چھولے گی اور ہمارے یہ ساتھی فتح یاب ہی لوٹیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.