ہمارا سماج اور عورت

تحریر: صادقہ بلوچ

معاشرے میں عورت کی حیثیت یا مقام کی جانب تو بنیادی اشارہ اس بات سے ملتا ہے کہ معاشرہ لڑکی کی پیدائش کو کس طرح قبول کرتا ہے اگر ایک عورت حاملہ ہو تو سبھی یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا کرے بیٹا ہو اگر بیٹی پیدا ہو تو عورت بدنصیب تصور کی جاتی ہے اگر بیٹا پیدا ہو تو نیک شگن سمجھ کر خوشیاں مناٸی جاتی ہیں، مویشی ذبح کیا جاتا ہے۔

جب کہ بیٹی کی پیدائش پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا ہمارے معاشرے میں پیدائش سے عورت کو مرد سے کمتر سمجھا جاتا ہے عورت کے حوالے سے بات کیا جائے تو ان کا سب سے پہلا اور بنیادی حق تعلیم ہے لیکن ہمارے علاقوں میں خاص کر دیہات میں عورت کی تعلیم کو غیرت اور بلوچی روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں عورت کے تعلیم کے خلاف معاشرے کا ہر دوسرا فرد ہوتا ہے بالکل اسی طرح ہمارے معاشرے کے ملا مولوی کا بھی اس میں بڑا کردار ہے۔ عورت کی تعلیم کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جیسے کہ سرسید احمد خان جیسے روشن خیال اور علم دوست شخصیت نے بھی ہر وقت عورتوں کے لیے تعلیمی اداروں کے قیام کی مخالفت کی اور اپنی نصیحت پر زور دیا کہ لڑکی صرف اور صرف دینی کتابوں پر توجہ دے بہت سے ملا اور مولوی اور ہمارے معاشرے کے لوگ عورت کو اس کی پہلی اور بنیادی حق سے محروم رکھتے ہیں کہ عورتوں کو ہمیشہ سے ہی مرد کی جائیداد سمجھتے ہیں اسی لیے اس کی ساری نشونما ایک ایسے ماحول کے تحت ہوئی ہے جس نے عورت سے اس کی اپنی شخصیت اور اپنی پہچان پامال کرنے کی لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔

جب عورت ایک بچی ہوتی ہے تو اس کا کوٸی وارث ہوتا ہے اور جب جوان ہوتی ہے تو کسی دوسرے آقا کی جائیداد بن جاتی ہے ان مالکوں کے حکم کے تحت اس کی ذات اس کی خواہشات اور ارمان اس طرح کچلے جاتے ہیں کہ عورت کی حیثیت سے وہ بطور انسان اپنے وجود کا تصور اور شناخت کھو ڈالتی ہے۔ اس کے زہن میں فقط ایک ہی اذاٰن ہوتی ہے کہ وہ کسی کی بیوی، کسی کی بیٹی، کسی کی بہو، کسی کی بہن ہے مگر وہ ازخود کچھ نہیں۔ وہ معاشرے میں مرد حضرات کی ملکیت ہے چاہے وہ مرد کوٸی بھی ہو، اس مرد سے کوٸی سا بھی رشتہ ہو۔

ہماری غیرت رسم و رواج اور ان پڑھ ملا مل کر عورت کی تعلیم کے ساری راستے تک بند کر دیتے ہیں۔ وہ اس طرح اگر براہ راست نا بھی کریں تو مختلف حیلے بہانے کھوج کر اپنا عورت دشمن مشن پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ آج بھی اگر کسی جرگہ یا محفل میں عورت کا ذکر آ جاٸے تو اسے کم تر یا پھر معیار و ننگ و ناموس سمجھ کر ذکر ہوتا ہے۔ عورت کی شناخت اور اس کے وجود کو قتل کرنے کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ آج پڑھے لکھے لوگوں میں بھی اپنے والد، بھاٸی یا مرد رشتہ دار کا نام تو فخر سے لیا جاتا ہے مگر اپنی ماں، بہن، بہو یا بیٹی کا نام کسی کو بتانا یا ظاہر کرنا گھسی پٹی دقیانوسی غیرت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

خوش قسمتی سے لڑکیوں کا تعلیمی سلسلہ اگر کہیں جاری ہے تو بہت پسماندہ ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لیے کچھ لوگوں نے تو مذہب کا ہی سہارا لے رکھا ہے اور صرف وہ آیات اور احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں عورت کو باپردہ گھروں میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پر اصلیت اس بات پر مبنی ہے کہ نبی محترم حضرت محمد ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ علمحاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔ اور ایک جگہ مزید ارشاد ہوا ”علم طلب کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا نہ پڑے“۔

لیکن ہمارے معاشرے میں ہمیشہ عورت کو مرد سے کمتر سمجھا جاتا ہے جیسے کہ ہمارے مذہب میں بھی عورت کو بڑا مقام دیا گیا ہے مگر مذہبی ٹھیکدار، جرگہ کا سردار، اور کمینہ صفت جاگیردار ہمیشہ عورت مخالف پرپیگنڈہ ہی کرتے ہیں اور عورت کو احمق، جاہل، کم عقل، چغل خور، فسادی نہ جانے کیا کیا کہتے پھرتے ہیں۔ فقط پروپیگنڈہ بھی نہیں بلکہ عورت کو مختلف حیلے بہانوں، تشدد کے ہتھیاروں اور پاور سسٹمز کے تحت کچلنے کے قبیح اعمال بھی اس دوران جاری رہتے ہیں۔

عورت پر جبر و تشدد کا حق تو جیسے ہر مرد وراثت میں لے کر پیدا ہوا ہو۔ ہمارے یہاں اسے پیٹنے کے لیے بھی کسی سبب یا جواز کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ پیٹنے والا خواہ شوہر بھائی ہو سسر یا دیور ہو یا چاہے بیٹا ہی کیوں نہ ہو عورت کو پیٹنے کا بلا جواز اتھارٹی رکھتا ہے۔ عورت پر تشدد ایک انسان کی زاتی مرض کی نشانی نہیں بلکہ ایک ایسی سیاسی و سماجی بیماری کی علامت ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اسے مذہب، قانون، رسم و رواج، سماجی اقدار وغیرہ کے تقدس کا لبادہ اوڑھتے ہیں۔ اور یہ نہیں سوچتے کہ عورت بھی مرد کی طرح ایک انسان ہی تو ہے اور اس کے حقوق مرد کے جتنے برابر ہیں۔ وہ کسی کی عزت، غیرت، ننگ و ناموس وغیرہ نہیں بلکہ ایک مکمل انسان ہے جس کی اپنی ایک الگ شناخت ہے، اپنا وجود ہے، اپنے جذبات اور احساسات ہیں۔

مگر ہمارے معاشرے میں سیاہ کاری جیسی فرسودہ رسم کی بھینٹ چڑھ جانا ہی عورت کا مقدر بناٸی گٸی ہے۔ ہمارے معاشرے میں صرف اور صرف عورت ہی قربانی دی جاتی ہے، خواہ وہ غیرت کے نام پہ ہو یا قوم کے نام پہ یا پھر قبیلے و خاندان کے عزت کے نام پر۔

پدرشاہی نفسیات کے حامل ہمارے معاشرے میں بالادست مرد جب چاہے عزت اور غیرت کے نام پر عورت کی زندگی چھین سکتا ہے، کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ ہمارے یہاں جو شخص سیاہ کاری کے نام پر جتنے زیادہ قتل کرے گا اتنا ہی مشہور، طاقتور، بہادر اور غیرت مند تصور کیا جائے گا۔ غیرت کے نام پر قتل جیسی فرسودہ رسم و رواج پر عمل کرنا واقعی انسانیت کی توہین اور عورت پر ظلم و ستم کی انتہا ہے۔ معاشرے میں عورت کو صرف لذت حاصل کرنے اور جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اور ہمارے معاشرے کا روایتی مرد کبھی یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ ایک عورت کےاس کے شانہ بشانہ کھڑی رہے اور اپنا حق مانگے۔

اس معاملے میں عورتوں کو چاہیے کہ وہ جرات سے کام لے کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرے اور انہیں روایتی لوگوں سے اپنے انسانیت آزادی برابری کے حقوق اور دیگر باتوں کو تسلیم کروائے اور تعلیمی اور روزگاری حوالے سے بھی آگے آئے اور خود عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے شعور کی سطح بڑھا کر اپنے جائز بنیادی انسانی حقوق کے متعلق آگاہی حاصل کریں۔ اپنے سماج کے اندر اپنی لڑاٸی خود لڑیں۔ اپنی شناخت، اپنا وجود گھِسی پٹی فرسودہ سماج میں اپنی جہد کے ذریعے منواٸیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.