بلوچ سماج کا ارتقائی اور طبقاتی پس منظر

تحریر: سجاد بلوچ

بلا شبہ بلوچ ایک قدیم قوم ہے جو مختلف قبائل کے ایک ساتھ ملنے کے بعد بلوچ کے نام سے وجود میں آتا ہے اور بلوچ بلوچستان کے قدیم باشندے کہلائے جاتے ہیں جن کی سرزمین جغرافیائی اعتبار سے اس وقت تین ممالک کے ساتھ بارڈر رکھتا ہے۔ شمالی علاقہ افغانستان، مغربی علاقہ ایران اور مشرقی علاقہ پاکستان کے ساتھ منسلک ہیں۔

بلوچ سماج کا ارتقائی پس منطر:

بلوچ بلوچستان کے حقیقی باشندے کہلائے جاتے ہیں، اگر بلوچ سماج کو سائنٹیفک بنیادوں پر پرکھنے کی کوشش کریں تو یہاں ہمیں یہ دیکھنے کو ملے گا کہ بلوچ سماج میں انسانوں کی ابتدائی زندگی میں جو ارتقائی تبدیلیاں رونما ہوئی تھی، آبی حیات (بیکٹیریا) سے لے کر مچلی (Cartilaginous Fish) تک اور مچلی سے لے کر خشکی اور پانی میں رہنے والے جانداروں تک اور پھر ان سے لے کر درختوں کی شاخوں پر اچھل کود کرنے والے بندروں تک اور پھر آخر میں بندر سے انسان ہونے تک کا یہ سفر ہمیں یہی بلوچستان میں ہی ملے گا۔

حالیہ برسوں میں ایک فرانسیسی آرکیالوجسٹ (ماہرینِ آثارِ قدیمہ) Jean-François jarrige اپنے بیوی Catherine Jarrige کے ساتھ 1974 میں بلوچستان کے قدیم تہذیب مہرگڑھ کا کھوج لگانے میں کامیاب ہو گیا۔ یقیناً Jean-François jarrige اور اس کا ہم سفر Catherine Jarrige نے بلوچستان کے قدیم تہذیب کو دریافت کرکے بلوچوں کا دل جیت لیا ہے۔

مہرگڑھ کی قدیم سولائیزیشن کے آثار سے یہ ثابت ہوتا کہ یہ تہذیب آج سے دس بارہ ہزار سال قبل کی ہے جس میں بسنے والے قدیم انسانوں کے استعمال کرنے والے برتن ، لوہے کے مختلف اوزار اور کشیدہ کاری وغیرہ آج کے بلوچ دیہی قبائلی علاقوں کے ساز وسامان سے یکسر ملتے جلتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سماجی گروہ ازل سے ہی اسی خطے میں آباد رہتا چلا آرہا جسے بلوچستان کہا جاتا ہے۔

پھر اسی طرح آگے چل کر ماہرین آثار قدیمہ یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ مہرگڑھ کے قدیم باشندے ان تمام تر عہد سے بھی گزرے جو انسانی سماج کی ترقی و تبدیلی کے باعث تھے۔ جییسے کہ پتھر کے زمانے سے لے کر کانسی کے زمانے تک کا عہد اور کانسی کے زمانے سے لے کر لوہے کے زمانے تک کا عہد یہ تمام تر مراحل مہرگڑھ کے قدیم باشندوں نے اسی سرزمین پر طے کیا تھا۔

میں یہاں ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب پری ہسٹاریکل بلوچستان (جلد اوّل) کے چند لائن شامل کرنا چاہونگا جو ہمیں بلوچ سماج میں انسانی زندگی کی مسلسل تبدیلی وترقی کے واقعات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

پری ہسٹاریکل بلوچستان” میں ڈاکٹر شاہ محمد مری انسانی ارتقاء یعنی ڈارونزم کو سراہتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ انسان باقی سارے جانوروں سے اس لئے مختلف ہوا کہ انسان نے اپنے سامنے کے پیر (یعنی ہاتھوں)کو کام لینا شروع کیا تو یہاں سے انسانی زندگی میں ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوئی۔

اسی طرح انسان مسلسل تبدیلی کے مناظر سے گزرتے ہوئے غاروں سے نکل کر اپنے لیے جھونپڑیاں تعمیر کرتا رہا اور غذا کی کھوج میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا مگر اس وقت انسان کافی مشکلوں سے دو چار تھا اور یہ عہد پتھر کے زمانے کا عہد تھا تو انسان کو شکار کے لیے صحیح معنوں میں استعمال کرنے کے لیے نا کوئی اوزار میسر تھا اور نا ہی کوئی دوسری اور شے۔ اگر تھا تو صرف لکڑی جس کے سِرے پر ایک پتھر باندھا ہوا تھا جو شکار کرنے میں مدد دیتا تھا۔

جب کہ انسان ان تمام تر ارتقائی مدارج (آبی حیات سے انسان تک کا سفر) طے کر چکا تھا تو پھر کیوں نہ اسی طرح ارتقائی سفر کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے
انسان اپنے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے غاروں سے نکل کر میدانوں کا رُخ چکا ہے تو لازماً پتھر کے عہد سے بھی نکل کر باہر آئے گا۔

تو ہوا کچھ یوں کہ انسان نے آگ دریافت کی اور آگ نے انسان کی زندگی ہی بدل ڈالی۔ آگ انسان کی پہلی اور کامیاب دریافت تھی جس نے انسان کو پتھر کے عہد سے لوئے کے عہد میں داخل کردیا۔ انسان نے آگ سے مختلف اوزار بنانے سیکھے اور شکار کےلیے استعمال ہونے والے اوزار بھی بنائے اور آہستہ آہستہ زندگی کے تمام تر مراحل طے کرتے ہوئے ایک منظم طریقے سے ترقی کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔

بلوچستان کا ابتدائی اور غیر طبقاتی سماج:

قدیم بلوچ سماج ایک غیر طبقاتی سماج تھا۔ جو اشتراکی اصولوں پر قائم و دائم تھا، جہاں کوئی ذاتی ملکیت کا تصور نہیں پایا جاتا تھا۔ اس ابتدائی اور غیر طبقاتی سماج میں کوئی ذاتی ملکیت ملکیت کا تصور نہیں پایا جاتا تھا اور ناہی کوئی طبقاتی اونچ نیچ پائی جاتی تھی (اصل میں ذاتی ملکیت اور زائد پیداوار ہی طبقاتی سماج اور اس میں اونچ نیچ ذات پات اور دیگر درجہ بندیاں قائم کرنے کی زمہ دار ہیں)

اس ابتدائی اور غیر طبقاتی سماج میں قبیلے کے تمام باشندے یکساں حقوق و مراعات رکھتے تھے۔ یہ نظام ابتدائی مادرسری نظام میں ڈھلتا گیا لیکن اس کی اشتراکی روح بہرحال قائم رہی۔ مادرسری نظام میں خاندان کی سربراہی کسی باہمت و تجربہ کار خاتون کے ہاتھوں میں ہوتی تھی، خاندان کے تمام افراد بمع اس کے شوہر اس کی بات کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔

ہمیں تاریخی طور پر یہ بات بھی سننے کو ملتا ہے کہ مادرسری نظام میں مرد عورت کی بالادستی تلے کام کرتے تھے یا عورت کی حیثیت آج کے میر و سردار کی حیثیت سے تھی۔

مگر کچھ ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اُس زمانے میں عورت کی بالادستی یا عورت کی حکمرانی اس طرح کی بلکل نہیں تھی جیسے کہ آج عورت مرد کی بالادستی تلے دم توڑ رہی ہے۔

کیونکہ مادرسری نظام قدیم دور تھا جہاں عورت کو اپنے سیاسی و سماجی طاقت بڑھانے کے لیے کسی ادارے کی ضرورت پڑتی تھی مگر اس وقت نا ریاست وجود رکھتی تھی اور نا ہی کوئی اور قانونی ادارہ جو عورت کی سیاسی طاقت کو بڑھانے میں مدد دیتا تو اسی وجہ سے چند ماہرین کا کہنا ہے کہ مادرسری نظام میں مرد اور عورت برابر تھے دراصل عورت کی حکمرانی مرد پر نہیں تھی بلکہ خاندان کی سربراہی عورت کے ہاتھوں میں تھی۔

مادرسری عہد میں انسان قبیلوں کی صورت میں رہتا تھا اور غذا کی تلاش میں مرد اور عورت ادھر سے اُدھر بھٹکتے رہتے تھے (یہاں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مادرسری نظام میں مرد اور عورت کے درمیان عدم مساوات کا رجحان ہی بلکل ناپید تھا۔)

اس خانہ بدوشی جیسے صورت میں عورت زیادہ بچے بھی پیدا نہیں کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔ چونکہ مادرسری عہد میں ماں کو زیادہ اہمیت حاصل تھی اسی وجہ سے بچے کی شناخت بھی ماں کی نام سے ہوتا تھا اور خاندان میں بھی ماں اور اس کی خاندان کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اور شادی بیاہ کے بعد مرد عورت کے گھر آکر رہتا تھا۔ چونکہ میں پہلے بھی اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ مادرسری عہد میں عورت کی حیثیت مالک یا آقا کی نہیں تھی اور یہ نظام چونکہ مضبوط سیاسی و سماجی طاقت پر استوار نہیں تھا لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ یہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم ہو گیا۔ اور اس کی جگہ پدرشاہی نظام نے لی، جہاں مرد کے مضبوط سیاسی و سماجی طاقت قائم ہوگئی۔

ایک بات میں یہاں کہنا چاہونگا کہ طاقت ایک ایسی شے ہے چاہے وہ ظالم کے ہاتھ میں ہو یا مظلوم کے ہاتھ میں اس کو استعمال کرنے سے دونوں ظالم و جابر بن کر معاشرے میں ابھریں گے اور تر معاشرتی خیر و شر انہی کے ہاتھوں میں ہوگا۔ پچھلے عہد یعنی مادرسری نظام میں ایسا کوئی ادارہ بھی وجود نہیں رکھتا تھا جس کے بل بوتے عورت اپنی مضبوط پنجے گاڑ دیتی اور معاشرے کے تمام وسائل پر اپنا قبضہ جما لیتی، لہٰذا پدرشاہی نظام کے وجود میں آنے سے ہی ریاست کا ظہور ہوا۔

بقول لینن: “ریاست ایک ظلم و جبر کا ارادہ ہے” اور اسی ریاستی اقتدار کے بل پھر مرد نے عورت پر حکمرانی شروع کر دی جس کی وجہ سے عورت کی تمام تر آزادیاں مرد نے سلب کر لیے اور عورت کو اپنا غلام بنا کر اپنے جاگیر کا ایک حصہ بنا دیا۔

اور آگے چل کر اسی پدرشاہی عہد میں ذاتی ملکیت کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے مرد نے اپنے ذاتی ملکیت میں عورت کو بھی شامل کر دیا۔ جو آج تک دنیا تمام تر قوموں میں بلخصوص بلوچ سماج میں بھی عورت کو مرد کی ذاتی ملکیت (جاگیر) کے بطور جانا جاتا ہے۔

قدیم مادرسری نظام کا خاتمہ اور طبقاتی نظام کا آغاز:

محققین بلوچستان کے ابتدائی مادرسری معاشرے کو سماجی و سیاسی اعتبار سے مساوی و اشتراکی قرار دیتے ہیں مگر بعد میں جب مادرسری عہد کا خاتمہ ہوا اور اس کی جگہ ذاتی ملکیت/ جاگیرداری نظام نے لی تو یہاں سے ایک منفی رسم قائم ہوگیا جس نے قبیلے اندر مختلف طبقاتی درجہ بندیاں قائم کی اور اسی طبقاتی تقسیم کی وجہ سے بلوچ معاشرے کے اندر توڑ پھوڑ کا آغاز شروع ہوگیا جس کی وجہ سے بلوچ معاشرے میں مساوات کا عمل مفقود ہوگیا۔

قدیم اشتراکہ نظام کے ختم ہونے کے ساتھ جہاں ایک طرف عورت اور دوسرے ان تمام قبائلی افراد جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے ان کی آزادیاں ختم ہوگئیں
اور دوسری طرف قبیلے کے سردار و سردار خیل خاندان سیاسی، سماجی و طبقاتی لحاظ سے اعلٰی حیثیت کے مالک بن گئے۔

بہرحال یہ تبدیلی شاید کسی معاشرے کو زندہ رہنے کےلیے ضروری تھیں۔ سی آر اسلم اپنی کتاب “جدلی و تاریخی مادیت کے اصول” میں لکھتے ہیں کہ “طبقاتی کشمکش وہ متحرک قوت ہے جو طبقاتی سماج میں سماج کی ترقی اور تبدیلی کا باعث ہے۔” طبقاتی کشمکش پُراَمن صورت میں بھی ہوتی ہے اور انقلابی صورت میں بھی، اور دونوں صورتوں میں طبقاتی سماج کی ترقی کا باعث طبقاتی کشمکش ہے۔

ایک طرف ذاتی ملکیت کا تصور اور طبقاتی کشمکش ذندہ معاشرے کی ترقی و تبدیلی کا ضامن ہے تو دوسری طرف اسی طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں نجانے کتنے لوگ اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار ہوتے ہیں اور کتنے وطن دوست اپنے ابتدائی آماج گاہوں سے بے دخل ہوکر جلاوطن کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے اور کتنے ہم وطن واسیوں کی آزادیاں ختم ہو کر ہمیشہ سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر دم توڑ جاتے ہیں۔ اسی طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں “یوسف عزیز مگسی” کے سوتیلے بھائی گل محمد زیب نے اسے مگسی قبیلے کے اقتدار سے گرا کر یوسف عزیز مگسی کو انگریز سامراج کی سفارش پر یہاں سے بہت دور لندن میں بیدخل کردیا، اسی طبقاتی تقسیم کا نتیجہ ہے جو بلوچ معاشرے میں لوڑی، ڈومب، مید، درزادہ قبائل کو کمذات اور کمتر تصور کیا جاتا ہے۔

ہاں اسی طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں چاکر و گہرام کے درمیان پرتشدد واقعات رونما ہوئے جو بعد میں قبائلی جنگوں میں تبدیل ہوگئی اور چاکر و گہرام انہی طبقاتی کشمکش کی وجہ سے بلوچستان کی سرزمین سے نقل مکانی کرکے ملتان میں جا بسے۔ اور بیرونی حملہ آور اسی داخلی گہما گہمی کے باعث بلوچستان پر اپنا تسلط قائم کر گئے۔

آج بھی بلوچستان میں طبقاتی نابرابری، عورت کی غلامی، ذات پات کے سوا نسلی امتیاز، علاقہ پرستی، خود ساختہ رہنماؤں کی شخصیت پرستی نہ جانے کِن کِن چیزوں کی پرستش تاہنوز جاری ہے۔ ان بتوں کی پرستش کو ختم کیے بغیر ہماری تمام تر توانائیاں بے سود ہیں جو ہم قومی جہد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

جب تک سماج کے مختلف طبقات اور پرتوں کی ہم ساٸنسی انداز میں نشاندہی نہیں کریں گے، ان کے آپسی تضادات کو پرکھ کر قومی محکومی کو نہیں سمجھیں گے، سماجی استحصال کردگاں اور بیرونی حاکم کی طرف سے ان کو مسلسل تواناٸی بخشنے کے جدلیاتی عمل کو نہیں سمجھیں گے کہ حاکم ان بالاٸی قوتوں کو کن کن بنیادوں پر تواناٸ فراہم کرتی ہے اور حاکم کے یہ نماٸندے کس کس طرح عام محکوم بلوچ عوام کو اپنے ارد گِرد بھٹکاتے ہیں تب تک ہم ایک منظم انقلابی مزاحمتی سیاسی طاقت بنانے میں مسلسل ناکام ہوتے رہیں گے۔

تو آئیں ایک ایسی ”ڈور میپ” تلاش کریں جہاں قومی سوال کے حل کو اس طرح منظم و مضبوط انداز میں ابھارا جاٸے کہ سماج کے تمام تر طبقات و پرتوں کو اس ”قومی سوال کے حل“ پر مکمل اعتماد ہو، طبقاتی سوال کی گنجائش ہی ناپید ہو، جہاں کوئی کسی کی پرستش نا کرے، سب برابر ہوں اور اسی برابری کی بنیاد پر ہم اپنی قومی زمہداریوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کر سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.