بلوچی بھاٸی، تعلیم اور سردار

تحریر: گل حسن احتشام بلوچ

ہم اکثر سوشل میڈیا پر ایک طنزیہ جملہ کستے ہوٸے سنتے ہیں کہ ”بلوچی بھاٸیوں کی تلیم (تعلیم) و ترقی میں رکاوٹ سردار ڈالتے ہیں۔“ پچھلے دنوں شرح خواندگی کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری ہوا اور اس رپورٹ میں بلوچی بھاٸی تمام تر محرومیوں اور استحصالی پالیسیوں کے باوجود مکران میں ایک نمایاں پوزیشن پر ہیں۔ اب سوال یہ ہے ہم اپنے پڑھے لکھے حکام کے اس طعنے کو کیسے دیکھیں کہ ”بلوچی بھاٸی کے تعلیم و ترقی میں رکاوٹ ان کے سردار ہیں۔“

سرداروں کے متعلق ہمارے اسلاف نے تقریباً ایک صدی قبل ایک واضح مٶقف دیا تھا اور ہمیں بتایا تھا کہ ” اب سرداروں کچلنا چاہیے ان سے سدھرنے کی امید فضول ہے۔“ بلوچ کا مجموعی مٶقف آج شعوری پروان چڑھ کر مزید پختہ و پکا ہو چکا ہے کہ ان استحصالیوں کا وجود بلوچ کے وجود کے لیے زہر قاتل ہے۔

اب یہاں سے پھر بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں ان کا جواب لازمی ہے کہ پھر الزام لگانے والے دیں یا ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بہت آسان ہے پھر بلوچ سرداروں کے پاؤں تلے بلوچ بیلٹ اور مكران بيلٹ جہاں سرداروں کا سکہ نہیں چلتا، کی بات کرتے ہیں، ان کی ترقی یا ترقیاتی کاموں کی تو کون زیادہ برباد ہے شکستہ حال ہے یا کس کے لیے دودھ و شہد کی نہريں بہتی ہیں شاید میں ان کی جگہ خون کی نہريں لکھوں تو مناسب ہوگا ان میں واضح فرق نہیں، ہاں البتہ ظالم کی گدھ جیسی آنکھیں ہمیشہ دونوں پر ٹکی ہوئی ہیں ۔ یہ ظالم کون ہے ؟کیوں ظلم کر رہا ہے ؟ اس کا جواب بھی سوال کرنے والے خود تلاش کریں تو بہتر ہوگا ۔ اب میں ان کی طرح صرف الزام نہیں لگاؤں گا بلکہ یہ تاریخی طور پر آن ریکارڈ ہے۔

کیا سوال کرنے والوں کو پتہ نہیں کے سوائے تین سردار کے باقی سب تو آپ کے پِٹو ہیں اور آج وہ تینوں سردار حیات بھی نہیں لیکن آج بھی بلوچستان کی شورش دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے طلبہ تنظیموں سے لے کر ڈاکٹر ،وکیل ،اساتذہ ،لیبر، مسنگ پرسنز کے خاندان، سول سوسائٹی کے ممبران یہ سب آئے روز احتجاج پر کیوں بیٹھے ہیں ؟ کوئی گیارہ سال سے كيمپ لگا کر بیٹھا ہے تو کوئی اپنے حقوق پانے کے لیے تادم بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کو تیار ہے، کہیں ماں باپ کا لاڈلا حیات ان کے سامنے قتل ہوتا ہے تو کہیں کتابوں کا محب حفیظ بلوچ جیسا چراغ غائب کیا جاتا ہے۔

بلوچستان میں ایسی ہزاروں ان گنت کہانیاں ہیں جن پر نیشنل میڈیا کی کالی چادر پڑی ہوئی ہے ۔ ان کو تو صرف گوادر کا اسٹیڈيم نظر آتا ہے، جيپ ریلی نظر آتی ہے، سوئی گیس ،ريكوڈک ،گوادر پورٹ یہی ہے ان کا بلوچستان ہے ۔ یا پھر پنجاب کا نصاب جو ان کو بچپن سے پڑھایا جاتا ہے اس میں بلوچ کو جاہل، جنگجو لکھا جاتا ہے، یا کہ بلوچستان اسمبلی سے کچھ انجیوٹک مائنڈ سیٹ کے ممبران کی تقرير یا پھر مذہبی ملاؤں کا حقائق کو توڑ مروڑ کر بات کرنے کو موضوعِ بحث بنانا ۔

بلوچ قوم جیسی محکوم قوم پر الزام لگانے والے اگر تھوڑی مشقت کرکے زیرِ بحث آنے والے تمام واقعات کی جڑیں تلاش کریں، تو وہ ان کو وفاق میں پائیں گے، تو پھر مجھ پر الزام کیوں ؟ وفاق کے ہر دم وفادار جام کمال و قدوس بزنجو کے علاقہ جات کا حال لیں تو سمجھ آجاٸے گا کہ بلوچ ان سے بیزار کیوں ہے لیکن بلوچ کو طعنہ دینے والے احباب و مسلط ان جیسے بدنام کرداروں کو ہمیشہ طاقت و تواناٸی فراہم کرتے رہتے ہیں اور ان کی مضبوطی کو داٸم قاٸم کرنے میں کوٸی کسر نہیں چھوڑتے۔

اب اگر سرداروں کی بات کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کون سے سردار اور کس فیکٹری سے یہ سردار لانچ کیے جاتے ہیں یہ کس کے ڈھول پر رقص کرتے ہیں ؟ کس کی ساز پر پھدکتے ہیں؟ یہ الزام لگانے والے خود ڈھونڈ لیں۔

کیا سوال کرنے والوں کو پتہ نہیں کہ بلوچستان کا باشعور طبقہ ان سرداروں کو کس اينگل سے دیکھتا ہے ؟ آج دن تک بلوچ سرداروں نے بجائے قوم کو منظم کرنے کے ہمیشہ زیر کرنے کی کوشش کی ہے، بلوچستان کے حقوق کا مقدمہ لڑنے والے بلوچ اينٹی سردار ہیں۔ اب تو بلوچستان کے اندر ٹھیک دو نظریے بن چکے ہیں اس سے میرا مطلب اب بلوچوں کی سوچ پروازیں بہت بلند ہیں وہ مزید ان سرداروں کے سایے تلے رہنے کےلیے تیار نہیں۔

وہ تو اپنے چاکر و نوری نصیر خان کی تلاش میں ہیں جس دن یہ بلوچ کی رہنمائی کےلیے میدان میں آگئے تو پھر مشکل ہے کہ ان سرداروں کو کوئی دیکھ سکے ۔
بلوچ کے تو وہی تین سردار تھے جن پر زندگی بھر غداری کا الزام لگتا گیا ۔ جنہیں آپ زندگی بھر غیر ترقی پسند اور تعلیم دشمن کہتے تھے۔ جن کی قبریں آج بھی روشن ہیں اور آج بھی بلوچ قوم ان کے بچھڑنے کے غم میں مبتلا ہے۔

بلوچ قوم کے درد کو محسوس کرنے والے وہی تین سردار تھے۔ جن پر زندگی بھر فتویٰ لگتا رہا بلوچ قوم کو تو آج بھی وہی تین غداروں ( معترضین کے الفاظ میں) کی ضرورت ہے ۔

اب بلوچ وفاق کی پشت پناہی کرنے والے ان کٹھ پتلی سرداروں کو مزید برداشت نہیں کرپا رہے ہیں یہی سردار تو حقیقی تعیلم دشمن ہیں، یہی سردار تو بلوچ قوم کی ترقی میں رکاوٹ ہیں لیکن جناب سوال کرنے والے بھلا زحمت کرکے ان کی پشت پناہی کرنے والی دیوہیکل قوتوں کا اندازہ لگا لیں، جن کو میں تو خوب جانتا ہوں اور میں انہیں کو ہی قصور وار سمجھتا ہوں۔
بقول ان دیوہيكل قوتوں کے بس تین سردار ہی تو ہمارے مخالف ہیں ، تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ تین سردار اب حیات نہیں، وہ تین غدار اب موجود نہیں، وہ تین تعلیم دشمن ہمارے درمیان نہیں!

اب آپ بتائیں ان تین سرداروں کے جانے کے بعد کیا بلوچستان نے ترقی کی ؟ کیا بلوچستان میں نئے ادارے قائم ہوئے ؟ کیا بلوچستان خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوا۔ نہیں بالکل نہیں، تو پھر تعلیم دشمن کون ؟

کیوں آج بھی حفیظ بلوچ جیسے علمی چراغ لاپتہ ہو رہے ہیں، سائرہ بلوچ جیسی کم سن بچی سڑکوں پر اپنے لاپتہ بھائیوں کےلیے فریاد کررہی ہے ؟

سوالات شاید مجھے بھی غدار قرار ديں لیکن حقیقت تو یہی ہے ۔ اسی ہی قطار میں بلوچستان کے طلبہ جو بلوچستان اور باہر صوبوں میں بھی محفوظ نہیں۔ روزانہ طالب علموں کو لاپتہ کرکے ٹارچر سیلوں میں بند کردیا جاتا ہے ۔ آخر یہ سب کون کرتا ہے ؟ کیوں کر رہا ہے ؟ لازم ہے پھر ان کی تلاش میں سوال کرنے والا ایک لمبی تاریخ کی جانب قدم رکھے گا کیوں کہ بلوچستان کی اصل کہانی ایک عام شخص سے ڈھکی چھپی ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مسلط کردہ حاکم کے نماٸندوں کے گرد گھیرا اتنا تنگ ہو جاٸے کہ اپنے مالک و آقا سے امداد، طاقت و تواناٸی لینے کی مزید ان میں کوٸی گنجاٸش باقی نہ ہو، ان کے سروں ایسا کچل دیا جاٸے کہ پھر ان کے آقا ڈھونڈنے پر بھی ایسے استحصالی نماٸندے ڈھونڈ نہ پاٸیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.