بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

تحریر: محمد جان بلوچ

اس گھٹن زدہ سماج میں جہاں انسان کو سانس تک لینے کی آزادی نہ ملے جہاں پوچهنے اور سوال اٹھانے پہ پاپندی عاٸد ہو، جہاں محکوم کو سرمایہ دارانہ نظام کے ساۓ تلے سِسسک سِسسک کہ اپنے زیست کی چند آخری سانسیں لینی پڑیں ، جہاں غربت کے مارے بے بس عوام دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے سکڑتی ہوٸی جسم کے عضو تک کو لیلام کرے، جہاں شعور و علم ،معیاری تعلیم تک پہ آپ کی رسائی نہ ہو آپ کے سوچنے کی زہنی صلاحیت کو چھین لیاجاۓ، حتٰی کہ آپ کو سانس لینے کا بھی حق حاصل نہ ہو اور بزورے شمشیر آپ پر یہ مظالم مسلط کیے جاٸیں تو یقین جانیں آپ بےبس، لاچار محکوم اور غلام ہیں۔

اگر یہ سب ہونے کے باوجود بھی آپ کے زبان پہ اُفف تک کے وہ درد سے بھرے الفاظ نہ آٸیں اور آپ کو ان تمام مظالم پر فِکر نہ ہو تو یقین جانیں آپ جیتے جی مرچکے اور زندہ لاش بن چکے ہیں، آپ سے انسانی حس چھینی جا چکی ہے۔

اگر آپ اِن سماجی جکڑ بندیوں سے آزاد ہونا چاہتے ہیں تو بولیں اور اپنے بے جان لبوں کو جُنبش دیں۔ وہ مزاحمتی کلمات لاٸیں اپنے زبان پر ، اگر آپ چاہتے ہیں کہ سماج میں زندہ ہونے کا احساس جاری رہے تو بولیں، بولنے میں کیسا حرج، وہ سماج جو مختلف طبقات پہ قاٸم ہے وہ سماج جو قبائلی، روایتی، اور مذہبی جکڑ بندیوں کا شکار ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس میں تبدیلی کا ارتقاٸی عمل جاری رہے تو آپ کو بولنا پڑے گا ، آپ کے سچ بولنے سے عقوبت خانوں کی دیواریں اور ظلم کی زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں، غلامی و محکومی کے ان بندھنوں سے نجات مل سکتی ہے، جبر و تشدد سے آزادی مل سکتی ہے۔

بولیں اور بولنے کے روایات کو جنم دیں۔ خون میں لِھتڑے لاشوں کے لیےبولیں ، بولیں حیات اور برمش کو زندہ رکھنے کے لیے، لاپتہ ہونے والے بلوچ فرزندوں کے لیے بولیں، لاپتہ ہونے پر جبر و اذیت سے نجات حاصل کرنے کےلیے بولیں، نام و نہاد غیرت کے نام پہ آۓ روز قتل ہونے کے اُس عمل کے خلاف جو آپ سے بولنے کی صلاحیت کو چھین رہا ہے،جو تمہارے ہیداٸشی حقوق کو غصب کر رہا ہے، اس ظالم کےخلاف بولیں، عدل و انصاف کےلیے بولیں، اپنی نجات کےلیے بولیں۔

ہاں یہ حقیقت ہے جب آپ بولیں گے تو آپ سماج میں باغی گردانے جاٸیں گے۔ آپ کو پرکھٹن خارِ زار راستوں سے گزرنا پڑے گا اور طرح طرح کے القابات سے نوازا دیا جاٸے گا۔ مگر آپ کہتے رہیں بولتے رہیں کہ ایک دن مان لیا جاٸے گا کہ زمین گردش ایام میں ہی ہے۔ ایک دن اس بات کا اقرار ہو ہی جاٸے گا کہ محکوم ہی طاقتور ہے، ظالم ہی شکست خوردہ ہے۔

مگر ہمت رکھیے آخرکار گِلیلیو کی طرح آپ کے بات کا بھی یقین کیا جاٸے گا اپنے بولنے کی صلاحيت کو جاری رکھیں۔ بولتے رہیں سوال اٹھاتے رہیں، اگر سماجی تبدیلی کے لیے ارسطو کی طرح کبھی آپ کو بھی زہر کا وہ کڑوا پیالہ بھی پینا پڑے تو پی لیں، مگر بولنے کے عمل کو جاری رکھیں کہ یہی حق و سچ کا راستہ ہے، یہی پیغمبری کا راستہ ہے یہی تو راستہ ہے جس میں نجات ہے، جس میں اندھیروں کا اختتام ہے، نیا بامسار ہے۔

اتحاد جدوجہد آخری فتح تک

Leave a Reply

Your email address will not be published.