تعلیم کی گھمبیر صورتحال

تحریر: صادقہ بلوچ

دنیا بھر میں کسی بھی قوم و ملک کی ترقی کے لیے تعلیم کی اتنی ہی اہمیت ہے جیسے گھپ اندھیرے میں روشنی کی۔ تعلیم کو آج دنیا بھر میں پرائمری سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن کے اعتبار سے تین درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے اگرچہ ان تینوں درجات کی اہمیت کسی بھی طرح ایک دوسرے سے کم نہیں۔

مگر آج کی دنیا میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کی درجہ بندی کے لیے بنیادی پیمانوں سے اہم ترین پیمانہ ہائر ایجوکیشن یعنی اعلٰی تعلیم کا ہے تو اسی طرح اگر پسماندگی کی بات کی جائے اور تعلیمی معیار میں پیچھے ہونے کی بات کی جاۓ تو بلوچستان میں تعلیمی نظام میں بہتری بہت کم دیکھی جا سکتی ہے۔

رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے، جس کی آبادی ایک کروڑ 31 لاکھ 60 ہزار ہے اس صوبے کی اہم بات یہ ہے کہ یہ صوبہ قدرتی وسائل اور خزانوں سے مالا مال ہے مگر یہ بات انتہائی افسوس کی ہے کہ پاکستان بننے سے آج تک اس صوبہ کو ہر شعبہ میں نظر انداز کیا گیا ہے اور اس کی عوام کو زندگی کی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری ہے۔

خاص طور پر تعلیم کے میدان میں یہ صوبہ سب سے زیادہ بدحالی کا شکار نظر آتا ہے جب ہم تعلیم کے میدان میں بلوچستان کا دوسرے صوبوں سے تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو یہ جان کر انتہائی دکھ ہوتا ہے۔ بلوچستان تعلیمی لحاظ سے بھی بہت پیچھے ہیں 2017 کے مردم شماری سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بلوچستان تعلیمی لحاظ سے کتنا پیچھے ہے کیوں کہ مردم شماری کے بعد سے یہ پتہ چلا ہے کے بلوچستان میں تعلیم 43.58 ہے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کا صوبہ دیگر صوبوں کی نسبت بہت ہی پسماندگی کا شکار ہے اور اور تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہے یہاں پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے کیا وجہ ہے کہ بہترین وسائل اور بیش بہا قدرتی خزانوں سے مالا مال خطہ انتہائی غربت پسماندگی اور جہالت کا شکار ہے۔

یہ غربت ہی ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے قابل نہیں ہے والدین اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابیں کاپیاں اور بیگ خرید کر دے سکیں۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ حکومتیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھے مگر حکومتوں کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں بھی پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح قباٸلی و طبقاتی نظام رائج ہے۔ میر و ٹکر تو اپنی اولاد کو بیرون ملک تعلیم کے لئے بھیج دیتے ہیں جب کہ اپنے علاقے کے لوگوں کو بنیادی تعلیم سے بھی محروم رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیم کا نظام اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک حکومتیں اس مسئلہ کو ایک بہت بڑا مسئلہ نہ سمجھیں اور اس کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر نہ رکھیں اور یہ قدم صوباٸی حکومتیں ایک مخصوص ٹاسک کے طور پر لی اور اس کے لیے ایک اسپیشل مگر سیاسی عمل دخل و سفارشی و کرپشن کلچر سے ادارہ تشکیل دیں جس کا مقصد فقط تعلیمی معاملات کو دیکھنا اور انہیں درست کرنا ہو، تب جا کر شاید بلوچستان میں تعلیمی صورتحال کچھ بہتر ہو سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.