عورت کہانی، عورت کی زبانی

تحریر: سازین بلوچ

بلوچستان کی عورتیں آزاد اور خودمختار ہیں۔ یہاں خواتین کو عزت اور غیرت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں کبھی بھی عورتیں ہراساں نہیں ہوتیں۔ یہاں گھروں میں شوہر بیوی کو نشے کی حالت میں نہیں پیٹتا۔ یہاں کم عمری میں بچیوں کی شادیاں نہیں کروائی جاتیں۔ یہاں باپ بھائی اپنے بہن بیٹیوں کو کبھی بھی کام صحیح نہ کرنے پہ باتیں نہیں سناتے۔ یہاں عورتوں پر زبردستی کا شادی مسلط نہیں کیا جاتا۔ یہاں روز ہزاروں کی تعداد میں زچگی کے دوران عورتیں نہیں مرتیں۔ یہاں بیٹیوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ یہاں پیدا ہوتے ساتھ ہی بچیوں کا رشتہ طے نہیں کیا جاتا۔ یہاں معیار، لج، عزت، کے نام پر رشتہ توڑتے وقت عورتوں سے پیسے نہیں بٹورے جاتے۔ یہاں عورتوں کو کبھی بھی اپنے مجبوریوں کے لئے سڑکوں پے نہیں گھسیٹا جاتا۔ یہاں عورتوں کو سیاست کرنے سے کبھی نہیں روکا جاتا۔ یہاں بچہ نہ ہونے پر بیوی کی اجازت کے بغیر میاں کبھی دوسری شادی نہیں کرتا۔ یہ سارا بیانیہ اس سماج میں اپنایا گیا ہے جس میں عورت آٸے روز عزت، غیرت، ننگ و ناموس قرار دے کر قتل کردی جاتی ہے۔

جس طرح شے مرید نے ھانی کو ایک قول کی وجہ سے چاکر کو تحفے میں بخش دیا۔ ھانی تو شہہ مرید کی ملکیت نہیں تھی وہ تو ہم سفر بننا چاہتی تھی اور ھانی تو اس سودے کے لئے تیار ہی نہیں تھی تو ھانی کو کونسی اذیتیں سہنی پڑی ہونگی کس طرح وہ صدمے میں گئی ہوگی۔ اس بات کا ذکر کوئی نہیں کرتا لیکن اس بات کا واہ واہ سب کرتے ہیں کہ شے مرید اپنے قول پر ڈٹا رہا، یہ کیسا قول ہے یہ کیسی مردانگی ہے کہ ایک عورت کو اس پر قربان کرنا پڑے ایک انسان کو جیتے جی مارنا پڑے۔

شے مرید کے اس عمل کے بعد ھانی روز مری ہوگی روز اس نے خودکشی کا سوچا ہوگا روز وہ اس مرد کو سہتی ہوگی جس کے لئے وہ تیار نہیں تھی۔ لیکن اس بات سے تو کسی کو لینا دینا ہی نہیں ہے کیونکہ شے مرید نے بلوچی زبان کی پاسداری کی یہی سب کے لیے باعث فخر ہے۔ لیکن اس زبان کی پاسداری کے سبب اس نے ھانی کو جیتے جی مار ڈالا، اس کے وجود کو ختم کردیا یہ سب کے لئے معمولی اور اچھی بات ہے۔

جب میر شہداد خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے مہناز کو حاصل نہ کر پایا تو اس نے شادی کر لی لیکن جب خاندانی جھگڑے ختم ہوئے تو اس نے دوسری شادی مہناز سے کر لی اور اس نے اپنی پہلی بیوی کو بلکل ہی رد کردیا، تو پہلی بیوی جو وکٹم ہی تھی اور شہداد کی بے وفائی کے سبب ہی وہ مجبور ہوئی کے مہناز کے خلاف جھوٹ بولیں اور اس کے کردار کو داغ دار کر کے اپنے لئے شہداد کے دل میں جگہ بنائے۔ لیکن شہداد نے مہناز کے معاملے میں بھی عمر کو اذیت نہیں دی بلکہ مہناز کو ایک کمزور عورت سمجھ کر اس کی پاک دامنی ثابت کرنے کے لئے اسے اس بات پر اُکسایا کہ وہ گرم تیل میں ہاتھ ڈال کر اپنی بے گناہی ثابت کرے۔ لیکن اس عظیم عورت نے یہ کر کے دکھایا لیکن شہداد کے ساتھ جانے سے انکار کیا کیونکہ جو مرد ایک عورت کو انسان نہ سمجھے اس کے ساتھ زندگی گزارنا نا ممکن ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک عورت اگر مرد سے علیحدگی کا مطالبہ کرے تو سچائی سے منہ پھیر کر اسے بدکردار اور آوارہ گردانا جاتا ہے اسے طرح طرح کی القابات سے نوازا جاتا ہے اس کی تربیت پہ انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں پتہ نہیں اس کا نام کتنے مردوں سے جوڑا جاتا ہے اور یقیناً مہناز کے ساتھ بھی یہی سب ہوا ہوگا لیکن اگر یہی کام مرد کریں تو دوسرے دن ہی اس کے لئے رشتہ ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں گھر والے ،یہ کہہ کر کہ پہلی بیوی تو بدکراد تھی تاکہ اس مرد کے شان میں گستاخی نہ ہو۔

لڑکا اگر کسی سے محبت کرے تو ڈھول بجا کر اس کے لئے رشتہ لے جاتے ہیں اگر یہی محبت غلطی سے کسی لڑکی نے کی تو اسے سیاہ کاری کے کھاتے میں لکھ دیا جاتا ہے اور پھر مجال ہے کہ وہ لڑکی زندہ بچے اسے سنگسار کر دیا جاتا ہے اگر بچ بھی جائے تو اسے دماغی مریضہ بنایا جاتا ہے تاکہ وہ محبت کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔

بلوچستان میں کم عمری کی شادی عام ہے بلکہ جب بچی بالغ ہو جائے مطلب کے اس کے ماہواری شروع ہو جاٸیں تو بلا جھجک اسے کسی مرد کے حوالے ڈھول بجا بجا کے کیا جاتا ہے شادی کا ڈرامہ رچا کر تاکہ وہ اپنے وحشی پن کا اظہار کرسکیں اور بیوی کا ٹیگ لگا کے جو ظلم اور تشدد وہ کرپائیں کریں۔ کیوں اب وہ عورت اسی کی ملکیت ہے روز اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر عورت کو یہ احساس دلاتا ہے کہ میں تمہاری محرم ہوں اور ہر سال اسی محرم کا ایک بچہ پیدا کرنے والی وہ عورت زندگی اور موت کے درمیان جب تڑپ رہی ہوتی ہے تو وہ مرد دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے کہ بیٹا ہو میں کہتی ہوں کاش کہ ان مردوں کو لیبر روم میں لے جا کے دکھایا جائے کہ یہ عورتیں تمہاری نسل کے لئے موت کے منہ تک کو جانے کے لئے تیار ہیں۔

اسی طرح بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں میں روز ہزاروں کی تعداد میں زچگی کے دوران عورتیں اپنی زندگیاں قربان کرتی ہیں تاکہ مرد کم از کم انہیں بے اولاد ہونے کا طعنہ نہ دیں اور بلوچستان کے کچھ ایسے بھی علاقے ہیں جہاں شادی کے رات گھر والوں کو لڑکی کے virgin ہونے کا ثبوت بھی چاہیے ہوتا ہے اگر کسی وجہ سے وہ virgin ہوتے ہوئے بھی ثابت نہ کرپائی تو اسے اسی وقت غیرت کے نام پر مرد قتل کر دیتا ہے تاکہ وہ اپنی مردانگی دکھا سکے یا پھر اسی رات اسے طلاق کے تین لفظ بول کے زہنی مریضہ بنا دیتا ہے۔

کسی تعلیمی ادارے میں اگر ہراسانی کا کوئی اسکینڈل سامنے آیا تو باپ بھائی کال کر کے لڑکی کو گھر بٹھا دیتے ہے یہ جان کر کہ میری بیٹی کا تو کوئی قصور نہیں لیکن پھر بھی عزت اور غیرت کا ڈھونگ رچا کے بیٹی کو پاؤں کے نیچے کچل دیا جاتا ہے تاکہ وہ جی جی کرتی رہے اور اپنے حقوق سے دستبرداری کا حلف اٹھائے۔ حال ہی میں جامعہ بلوچستان کی اسکینڈل کی وجہ سے پتہ نہیں کتنے بچیوں کو پڑھائی سے ہاتھ دھونا پڑا، پتہ نہیں کتنی لڑکیاں شادی کے نام پر وحشیوں کے ظلم سہہ رہی ہوں گی، پتہ نہیں کتنے لڑکیوں کے خواب اجاڑ دیے گٸے ہونگے، ان کی زندگی پر اس ان کا حق چھین لیا گیا ہوگا۔ لیکن پھر بھی عورت تو عورت ہے مرد کچھ بھی کریں سہتی تو عورت ہی ہے کیونکہ اسے بچپن سے کمزور ، کم عقل، جاہل اور بے کار جیسے الفاظ سے نواز کر ان کی پرورش کی جاتی ہے تاکہ وہ واقعی کمزور پڑ جائیں اور ان درندوں کے ہتھے چڑھ جائیں اور اپنے لئے کچھ بول نہ سکیں۔

یہ سراسر ایک ڈرامہ ہے غلط فہمی ہے اور جھوٹ ہے کہ بلوچستان کی عورتیں جو زندگی گزار رہی ہیں وہ خوش حال زندگی ہے جہاں کوئی غم کوئی نا برابری کا سوچ جہاں وحشی پن موجود نہیں ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے تم بلی سے نہیں بچ پاؤ گے حقائق کو نظر انداز کر کے کوئی مفید حل نہیں نکالا جا سکتا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ان چیزوں کے بارے میں سوچیں اور سمجھیں اور اپنی نسلوں کو اس ظلم اور بربریت سے بچائیں بجائے ان کو چھپانے کے ان پر سوچیں انہیں ڈسکس کریں نہ ڈسکشن سے مردانہ عزت پر کوئی آنچ آئے گی اور نہ قد کاٹھی میں کمی ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.