وطن گلزار رہے

تحریر: چنگیز بلوچ

انسانی جہد کی جدید تاریخ میں وطن کا نعرہ اہم ترین ہے، جس کی خاطر لاکھوں افراد کی قربانیاں آج بھی ایک تاریخ رقم کرتی آ رہی ہیں۔ قومی حق خود ارادیت، اپنی مرضی سے زندگی گزارنا، اور کسی دوسرے کی مداخلت کے بغیر اپنے اجتماعی فیصلے کرنے کا اختیار، اپنی زمین پر پوری طرح آزادی کا عملی احساس دنیا بھر کی قوموں کی جدوجہد کا مہور ہے۔

جبر کے تضاد میں اپنی شناخت کو ماننا اور منوانا، پہلی شرط ہے. غلام کی پہلی بغاوت تب شروع ہوتی ہے جب وہ اپنا نام لیتا ہے۔ یہ نام ہی اس کی علیحدہ حیثیت کی علامت ہے اور یہی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی الگ پوزیشن اور شناخت پر اپنا وجود منوائے. بلوچ قوم بھی جبر کے نظام میں اپنی زبان سے اپنا اظہار کرنا اور اپنی زمین پر اپنا اختیار حاصل کرنے کی جہد میں برسر پیکار ہے۔

تاریخ کے اس سفر میں سیاسی سرگرمی کا ہوتے رہنا نہایت ضروری ہے، سیاسی اکھٹ سے بہت سے بڑے کام سرانجام دیے جا سکتے ہیں، ایسے میں نہ صرف سیاسی بحث کا آغاز ہوتا بلکہ عوام ایک اتحاد کا احساس بھی پاتی ہے. اس عمل میں پورا سماج طاقت کی پرورش کرتا ہے اور یوں طاقت کو پریکٹس بھی کرتا ہے۔

عوام الناس کے عمومی مسائل ہوں یا نظریاتی مدعوں پر بغاوت کرنا ہو، سماج کو مثبت مدعا مہیا کرنا سیاسی رجحانات کا کام ہے. شعور کا عمل اپنے آس پاس کی پہچان سے شروع ہوتا ہے، اور رشتوں کی باریکیوں تک کو جاننے اور اس کے تجزیے کو پہنچتا ہے. سیاسی عمل کو شروع کرنے جتنا اہم کام ہی اس کے معیار کو بڑھانا ہوتا ہے (یہاں معیار سے سادہ مراد سیاسی بحث کا میچور ہونا ہے)۔

بلوچستان میں حالیہ سالوں میں ابھرتی تحریکوں نے قومی سطح پر ایک جامع اثر ڈالا ہے۔ بلوچ وطن کے طول و عرض پر سیاسی تحرک پایا جاتا ہے۔ ہر سطح پر بلوچ زیادہ بہتر اظہار کرنے کی طرف گیا ہے۔ محلے کے مسائل سے لے کر، علاقے اور قومی سطح تک کے معاملات پر عوام نے مسلسل اپنا سیاسی حصہ ڈالا ہے. اسی تسلسل میں یہ شعور نہ صرف پھیلتا گیا ہے، بلکہ اس کی بحث بھی زیادہ بڑے مسائل پر پہنچی ہے۔

بلوچستان میں بھی یہ سفر اپنا ارتقائی عمل طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، طلبا تحریکوں کو میں نے خود دیکھا اور شامل رہا، لیکن گوادر تحریک نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ میں یہاں تحریک کی لیڈرشپ پر بات کرنا نہیں چاہتا، اس حوالے سے بات کرنے کیلئے مجھے مذید بہت سی مستند معلومات کا ہونا ضروری ہے. لیکن سیاسی وابستگیوں پر ہماری مخالفت ہم آگے واضح کرتے رہیں گے۔ یہاں مدعا اس تحریک کی ڈیمانڈز اور اس کے گرد جمع ہوئے لاکھوں افراد ہیں۔ تحریک کی بنیاد یعنی اس کے ”مطالبات“ معاشی ہیں اور اس میں شامل افراد ان معاشی وجوہات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ جڑے ہوئے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں۔ گزران کے اس مسئلے نے لاکھوں کا مجمع اکھٹا کیا اور عوامی یاد داشت میں ایک عظیم تجربے کا اضافہ کیا۔

جیسے کے طلبا تحریکوں سے احتجاج بڑھ کر اب معاشی مسائل کے ارد گرد بھی مجمع ہونا شروع ہوا ہے۔ اور ان معاشی مسائل کو لامحالہ سیاسی مدعوں میں تبدیل ہونا ہوگا. عوامی سطح پر سیاسی سرگرمی کے بحال رہنے سے عوامی شعور میں جو اضافہ ہوتا ہے وہ مطالبات اور نعروں میں بھی ریڈیکل تبدیلی لاتی ہے اور سیاسی اشرافیہ پر ایک دباٶ کی صورت میں بھی کام کرتا ہے جو تحریکوں کو کچھ ”مخصوص“ افراد کی سیاسی لیڈرشپ کی محتاجی سے بھی نکال دیتی ہے۔ بلکہ عوامی سطح پر ایک قیادت مسلسل بنتی ہے جو عوامی رہنمائی کی ذمہ داری نبھاتی رہتی ہے۔

مولانا کیسا شخص ہے یہ الگ بات ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایک کردار جسے صرف مقامی سطح تک جانا جاتا تھا وہ کچھ ہی دنوں میں قومی سطح کی پہچان حاصل کرلیتا ہے۔ عوامی سطح پر اس شعور کا آنا کہ وہ نئی قیادت بنا سکتے ہیں جبر کے نظام کو شدید جھٹکا ہوگا۔ روایتی لیڈرشپ جو پیسے کے زور پر قابض ہے اب ضروری نہیں رہ جاتی، اب عوامی مسئلے پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ چوک چوراہوں پر بیان کیے جاتے ہیں۔

”ماما قدیر مارچ“ جو کہ گلزار دوست صاحب ابھی چل رہے ہیں، اسے قابل داد سمجھتا ہوں، گلزار دوست صاحب کو بھی زاتی سطح پر ایک دو ملاقاتوں کے علاوہ نہیں جانتا، لیکن ان کا جبری گمشدگی جیسے سنگین مدعے پر تربت سے کوئٹہ مارچ اپنی تاریخی اہمیت رکھتا ہے، تربت سے کوئٹہ تک کے ہر علاقے سے چند ہی افراد صحیح ان کے ساتھ کچھ قدم چلتے ہیں، اور یہ چند قدم بے معنی نہیں ہیں بلکہ ایک مکمل سیاسی اظہار ہے جبر کے خلاف، اور اسی کے توسط سے قومی سطح پر یہ اہم مدعا زندہ رہتا ہے۔

ایک اور اہم احتجاج اس وقت حفیظ بلوچ کی بازیابی کےلیے بلوچ کونسل کی طرف سے اسلام آباد میں چل رہا ہے۔ کونسل کی طرف سے پرامن احتجاجی کیمپ اور مارچ بھی ہوئے ہیں، قائداعظم یونیورسٹی سے لے کر (جس کے حفیظ بلوچ طالب علم ہیں) دارالحکومت کے پریس کلب تک بلوچ طلبا اپنا احتجاج ریکارڈ کر رہے ہیں۔ احتجاجی طریق کار میں بھی کچھ نئے طریقے دیکھنے کو ملے۔ وہیں کونسل کے کردار میں بھی ایک واضح فرق دیکھنے میں آیا ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔ کچھ سالوں پہلے کی کونسل اور آج حفیظ بلوچ کی گمشدگی اور دیگر طلبا مسائل پر متحرک کونسل بھی بلوچ قوم کی آگے بڑھتی ہوئی تحریک کی غمازی ہے۔

سیاسی واقعات کا جنم لینا اور اس کے سماجی اثرات مختلف النوع کے ہوتے ہیں، کچھ کا اظہار جلد ہوجاتا ہے، اور کچھ اثرات اپنا اظہار کرنے کیلئے وقت لیتے ہیں۔ زندہ قوم کی شناخت یہی ہے کہ وہ کتنا اپنے مفادات کی خاطر متحرک رہتی ہے۔ سیاسی زندگی کی شعوری بڑھوتری آج کی دنیا میں بقا کی بنیادی شرط ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.