آواران کے تعلیمی مسائل

تحریر: صابر وفا

ضلح آواران کا کل رقبہ 8350sqm ہے 2017 کے مردم شماری کے مطابق 121680 اس کی آبادی ہے۔ آواران کو 11 نومبر 1992 کو ضلح کا درجہ دیا گیا۔ یہ تین تحصیلوں پر مشتمل ایک ضلع ہے مشکے، جھل جھاؤ ،اور آواران۔ آواران بلوچستان کے ان بدبخت اضلاع میں سے ایک ہے جو تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ہنوز ان کےلیے ترس رہی ہے آواران کی اتنی آبادی ہونے کے باوجود بھی وہاں کے طلبہ پڑھائی کے لیے تربت، پنجگور، خضدار اور لسبیلہ کا رخ کرتے ہیں۔ بہت عرصہ بعد ابھی اسی سال اس بدبخت ضلعع میں ڈگری کالج کھولا گیا ہے لیکن خیر دیر آید درست آید۔

جیسا کہ نیلسن منڈیلا کہتے ہیں کہ تعلیم سب سے طاقتور ہتھیار ہے جسے آپ دنیا کو بدلنے کےلیے استعمال کرسکتے ہیں۔ درحقیقت جدید دنیا میں تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ تعلیم ہی وہ واحد زریعہ ہے جو صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرانے میں مدد دیتی ہے درحقیقت یہ جہالت کو ختم کرنے کےلیے سب سے اہم اور بڑا ہتھیار ہے۔ یہ بات ایک طرف خوش آئند ہے کہ اکیسویں صدی جہاں ٹیکنالوجی عروج پر ہے اور چین جیسے ممالک نے چاند پر کمند ڈال کر سمندروں میں پل(Bridges) بنائے ہیں تو دوسری طرف ضلح آواران کے عوام اس جدید دور میں بھی تعلیم جیسے بنیادی سہولیات سے محروم در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

ضلع آواران میں تعلیمی اداروں کی قلت بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے غریب طلبہ غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ امیر طبقے کے لوگ باہر نکل کر اپنی پروفیشنل ڈگری حاصل کر سکتے ہیں اور جو غریب طبقے کے لوگ ہیں وہ اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنی زندگی کی حسرت سے ہی جی رہے ہوتے ہیں یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ آواران جو کہ بلوچستان کے سب سے بڑے اضلاع میں سے ایک ہے۔ وہاں ابھی تک ڈگری کالج بھی صیح طریقے سے فنکشنل نہیں دوسری جانب According to Pakistan District Education Ranking 2017 الف علان کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیا تھا کہ ضلح آواران قومی سطح پر 137 ویں نمبر پر ہے۔آواران بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلح ہے۔ امید کے ساتھ اگر حکومت آئین کے آرٹیکل 25 اے کو نافذ کرتی تو کچھ مخلصانہ Sincerely اور ٹھوس اقدامات سے نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

مشکے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلح آواران کی ایک تحصیل ہے۔ یہ انتظامی طور پر تین یونین کونسلوں میں تقسیم ہے۔ گجر، نوکجو، پروار جب کہ مشکے ضلع آواران کی سب سے بڑی تحصیل ہے۔ مشکے میں لڑکوں کےلیے تقریبا پانچ ہائی اسکول اور لڑکیوں کےلیے ایک یا دو ہائی اسکول ہیں۔ اس سے ہم یہ بات زہن نشین کر سکتے ہیں کہ لڑکیوں کے لیے اُن کے اپنی ہی گاٶں میں اسکول میسر نہیں ہے۔ مشکے کے اسکولوں میں اساتذہ اور دیگر سہولیات کی کمی ایک تشویش ناک بات ہے۔ جس پر حکومت کی پوری توجہ کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی خستہ حالی نے بلوچستان کے دیہی علاقوں میں بالخصوص شہری اور عمومی طور پر تعلیم کے بگڑتے ہوئے دائرے کی تصویر کشی کی ہے۔ گورنمنٹ گرلز اور بوائز ہائی اسکول میں صرف چند اساتذہ موجود ہیں۔جب کہ دیگر اساتذہ وقت پر تنخواہ لینے کے باوجود غیر حاضر رہتے ہیں۔

ایف سی اور دیگر ریاستی اداروں نے بلوچستان کے ضلع آواران اور مشکے میں 2013میں آنے والے زلزلے سے گھروں اور اسکولوں کو اپنے زیر دست رکھا ہے اور وہیں مقیم ہیں، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ عوام کی مدد کرتے، بجائے اس کے انہوں نے مزید عوام کو ڈر اور خوف سے دو چار کیا۔ مشکے کے عوام اپنے گھروں سے نکلنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں کہ آیا ہم واپس اپنے گھر پہنچ سکتے ہیں یا نھیں۔اگر جس رات میں اسکولوں میں چاکنگ ہو تو اگلے دن اُس محلے کے تمام حضرات ممبران کو گرفتار کرکے اُن کو مار پیٹ کرکے پوچھ گچھ کرلیا جاتا ہے کہ کس نے چاکنگ کی ہے۔

مشکے میں تعلیم کا شعبہ انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے۔بہت سے سرکاری ٹیچرز ڈیوٹی کرنے کی بجائے شہروں میں رہائش پزیر ہیں۔ ان کی جگہ یا تو پراٸیویٹ ٹیچرز پڑھا رہے ہیں یا تو کوئی نہیں پڑھا رہا۔ ابھی اس سال 2022کی بات ہے کہ ساتویں اور آٹھویں کلاسز کے کچھ ایسے طلباء تھے جو شہروں میں رہائش پزیر ہیں۔ بغیر امتحان اُن کو upgrade کیا گیا ہے اگلے کلاسز میں اس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مشکے میں تعلیمی زبوں حالی کی کیا صورتحال ہے۔

مزید المناک صورتحال یہ ہے کہ مشکے میں اساتذہ کی کمی اور سہولیات کے فقدان کے باجود بھی اگر بچیاں اسکول پڑھنے جاتی ہیں تو سرنڈر کرنے والے لفنگے انہیں اکثر تنگ کرتے ہیں اور ان کو تو پوچھنے والا بھی کوٸی نہیں ہوتا، حتٰی کچھ بچیوں نے اسی وجہ سے اسکول جانے کا سلسلہ ہی ترک کر دیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.