ذہنی تناٶ اور تربت کا سفر

تحریر: صدام بلوچ

دنیا میں اس وقت ”ذہنی تناٶ کا مسٸلہ“ ایک عالمی مسٸلہ بن چکا ہے، گو کہ ہم محکوم اقوام اپنے بنیادی وجود تک کو سنبھالنے و بچانے کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ مگر آزاد اقوام بھی اس معمے میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور اس وقت عالمی ادارے اس پر ھنگامی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں سالانہ لاکھوں لوگ خودکشی کی کاوشیں کر رہے ہیں اور آٹھ لاکھ لوگ خودکشی کر کے اپنی جان لے لیتے ہیں ان میں اکثریتی تعدار نوجوانوں کی ہے۔

اس معاملے کی حساسیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگاٸیں کہ امریکہ بہادر جیسی عالمی طاقت کی آبادی کا نصف حصہ اس وقت ذہنی تناٶ کا شکار ہے۔ جہاں امریکہ جیسی ترقی یافتہ نمبر ون کا یہ حال ہو تو آپ بلوچ جیسی محکوم و غلام قوم کا اندازہ خود ہی لگاٸیں اس کی کیا حالت ہوگی جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ جبری گمشدگی کا شکار بن رہے ہیں، جہاں مسلط حاکم کے جنگی جنون نے بلوچ عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہو وہاں نوجوانوں کا ذہنی تناٶ کا شکار ہونا ایک معمول ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں اس وقت بلوچستان کی 98 فیصد آبادی نفسیاتی طورپر مکمل مجروح کی جا چکی ہے۔

ایسی ہی صورتحال ہر بلوچ نوجوان کی طرح مجھے بھی درپیش ہے۔ اسی تناظر میں میں نے سوچا کہ اپنے علاقے سے باہر نکلوں شاید کچھ فرحت محسوس ہو۔ دل نے خواہش کی کہ میں گوادر اور تربت کا چکر لگاؤں تو ایک دن اچانک پروگرام بنا میں صبح گھر سے نکلا کہ کچھ دن کے لیے تربت ہو کر واپس آٶں اسی میں تربت کا سیر بھی ہوگا اور کچھ زہنی طور پر سکون بھی حاصل ہوگا۔ اس غم زدہ ماحول سے کہ جاؤں فلحال تربت کو دیکھوں۔

گھر سے روانہ ہوا جیسے ہی میں روڈ پہنچا تو پہلا ویگن آیا جو کہ کوئٹہ کو جارہا تھا اس میں جگہ نہیں تھا کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد قلات والے ویگن میں سوار ہوا ویگن والے نے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ میں نے کہا سوراب۔ ویگن سوراب پہنچا تو پریشان تھا کہ اِدھر سے کس طرح جاٶں گا، دور سے ایک بندہ اپنا گلہ پھاڑ کر آواز لگا رہا تھا چلو چلو تربت گوادر چلو، تو میں خوش ہوا کچھ نہ کچھ ہوگا پھر میں نے اس کے ساتھ بات کیا کہ مجھے تربت جانا چاھتا ہوں اس نے کہا کہ مسئلہ نہیں تھوڑا انتظار کرو بس آ جائے تو اس کے ساتھ بھیج دیتے ہیں آپ کو۔

تھوڑی دیر بعد گاڑی آٸی اور میں سوار ہوا یہ زندگی میں پہلی بار تھا میرا تربت کی طرف جانا، انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگٸے اور گاڑی آخرِ کار پہنچ گیا اور ہم نکل گئے تربت کی جانب بس چلتا ہی جارہا تھا۔ میں نے اس بوریت میں داٸیں باٸیں نظر پھیرا تو کچھ لوگ بلوچی میں بات کر رہے تھے مگر افسوس کہ میں پوری طرح بلوچی نہیں سمجھتا تھا کہ یہ بلوچ قوم کے لاپتہ ہونے والے افراد کے حوالے سے بات کرہے ہی۔

گاڑی چلتا رہا کافی مسافت طے کرنے کے بعد تقریباً ایک گھنٹے کے بعد میں نے دیکھا کہ روڈ کے آس پاس ایف سی چوکی ہے میں حیران ہوا کہ اتنی چوکیاں گزرنے کے بعد بھی یہ چوکیاں ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہے؟ شاید انتے چوکیاں اور فورس کسی ملک کے باڈروں پہ بھی نہیں دیکھنے کو ملے گا کیوں یہاں ہر قدم عسکری چوکیوں کی بھرمار ہے۔

اس پر تو میں حیران ہوا کہ بندوق و خوف کے ساٸے تلے یہاں کے عوام کی کیا زندگی گزر رہی ہوگی، وہ کن کن نفسیاتی دباٶ اور خوف کی وجہ کن کن بیماریوں کا شکار ہوں گے۔ نا جانے یہ چوکیاں آبادیوں کے اندر کیوں بناٸی گٸی ہیں۔۔۔۔۔؟ جب کہ بلوچ تو لاپتہ انہی کے ھاتھوں ہوتا ہے، یہ راستے مجھ حساس انسان کو تو کربناک خوف میں مبتلا کر گٸے کہ ہر قدم پر مجھے اپنے ہی دیس شناخت بتانی پڑ رہی ہے۔ تلاشیاں دینی پڑ رہی ہیں اور ایک گنوار قسم کے جاھل کے متکبرانہ احکامات سننے پڑ رہے ہیں۔

اسی سوچ میں مہو تھا کہ ہم پنجگور پہنچ گئے۔ اِدھر بھی اس طرح کے حالت دیکھنے کو ملے شام 5 بجے ہم لوگ سلالہ آباد پہنچ گئے اِدھر بازار بھی پوری طرح سے ایف سی کے کنٹرول میں تھا۔ بازار میں تِجارتی اور کاروباری لوگوں سے زیادہ یہاں ایف سی والوں نے رش لگا رکھا تھا جیسا کہ یہی اِن کا کیمپ ہی ہو، یہ دیکھ کر میں حیران ہوا کہ یہاں کا عام وطن زادہ بلوچ اپنی زندگی اس غلامی میں کس طرح گزار نے پہ مجبور ہیں کہ صبح و شام ان پہ پہرے ہیں نہ کچھ کرسکتے ہیں اپنے لیے نہ کہ اپنے گھر والوں کے لیے خیر شام کو توڑا بہت بارش ہوا تو بجلی چلی گئی میں گھر سے نکلا اور دیکھا کہ سامنے ایف سی کی مین کیمپ تھی اُدھر بجلی تھی اور یہاں عام بلوچ چِراغ تلے اندھیرے میں تھا وہاں پہ چراغوں پہ رقص تھا شرابی محفلوں کی، خیر اس اندھیرے رات کو الودع کردیا ہم نے بڑی کوششوں کے بعد صبح میرے ایک دوست نے کہا یار کچھ چکر لگائے تربت کے تو دیکھا یہاں بھی یہی منظر دیکھنے کو مِلے یہاں جہاں آپ نظریں پھیرتے آپ کو ایف سی کا کیمپ ہی نظر آتا تھا اور یہاں تعلیمی اداروں، درسگاہوں، اور بیماروں کے لیے ہسپتالوں کی جہ یہی کیمپوں اور فورسز کی چوکیوں نے لے رکھا تھا۔

میرے زہن میں سوالوں کا ایک شور تھا میں سوچ رہا تھا کہ بلوچستان کس طرح سے ایک پوری چھاؤنی بنا دی گٸی ہے، اس حساب سے ہر 20 کلو میٹر کے بعد آپ سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ کہاں سے آ رہے ہو ؟ کہاں جا رہے ہو؟ میں تو حیران تھا کہ سلام ہے ان لوگوں کو جو اپنے زندگی کو گزار رہے ہیں اس چھاٶنی نما عقوبت خانے میں یہاں کے لوگ کس طرح سے اِن روز کے سوالوں کا سامنا کرتے ہیں، اپنے ہی وطن میں اتنی زلالت و رسواٸی بلوچ برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ بلوچستان ایک مکمل چھاٶنی اور پورا مکران اس چھاٶنی کے اندر ایک عقوبت خانہ و ٹارچر سیل ہے۔

تربت سے واپسی کےلیے جب ہم نکلے تو روڈ بند کر فیا گیا تھا، حوال لینے پر ان لوگوں نے کہا کہ سامنے والے گھر سے ایف سی نے تین بندوں کو اغواء کیا ہے، اور ساتھ میں ایف سی کی بھی گاڑیاں کھڑی تھیں میں نے کہا یہ ادھر کیا کر رہے ہیں؟ تو لوگوں نے کہا کہ ان کی بھی گاڑیاں بند ہیں اس ٹریفک میں ان کو بھی جانے نہیں دیتے ہیں یہ روڈ بندش آج کی نہیں ہے یہ سلسلہ کئی سالوں سے ایسے ہی چل رہا ہے۔ یہ لوگ اسراٸیلی فورسز کی طرح چوکیاں بنا بیٹھے ہیں تاکہ روزانہ کی بنیاد پر لمحہ بہ لمحہ بلوچ کو اس درد سے اس ٹارچر سے گزرنا پڑے۔

اس دوران حکام کے ساتھ مذاکرات ہوٸے، جھوٹی تسلیاں دی گٸیں، لوگوں کی بے بسی و محکومی فاٸدہ اٹھایا گیا، آسرے دیے گٸے، جھوٹی تسلیاں ملیں اور آخر کار آنسوٶں سسکیوں اور جھوٹی تسلی کی بنیاد پر روڈ کھول دیا گیا ٹریفک بحال ہوگٸی، مگر جس گھر سے لوگ لاپتہ ہوٸے تھے وہ واپس نہیں آٸے۔

یہ اذیتیں، یہ جبر، یہ اعصابی دباٶ، لمہ وطن پر لوگوں کی حالت زار دیکھ کر میں بھی خواہشیں کرنے لگا، دعاٸیں کرنے لگا، رب پاک منتیں کرنے لگا کہ خدایا اب تو بلوچ کو اس مسلط جبر سے نجات دلا دے، اب تو بلوط کے واسطے اس کے وطن کو گلِ گلزار کر، اب تو وطن کا مالک بلوچ کو بنا دے، حاکمیت بلوچ کو عطا کر، ایسی نجات نصیب کر جہاں کہیں خوف کا وجود نہ ہو، طاقتور و بالادستوں کی نیستی ہو، وطن میرا ہو وطن عام بزگ بلوچ کا ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.