پچاس سالہ سفر اور ہمارا مقام

تحریر: ظفر رند

ترقی پسند سماج کے محکوم اقوام کے لوگ بھی ہمیشہ نئی راہوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اپنے سماج کو آگے کی طرف لے جانے کی جدوجہد کرتے ہیں تاکہ وہ مزید دنیا کی اس تیز رفتار ترقیوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے سماج کو فیض یاب کر کے تمام تر استحصالی قوتوں اور کرداروں سے پاک کر سکیں۔ یہی ارتقاء کا بنیادی اصول ہے کہ وہ کہیں نہیں رکتا آپ جہاں کھڑے ہو اس کا انتظار قطعی طور پر نہیں کرتا بلکہ وہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

ہم ہمیشہ اپنی بات یا ڈسکشن فرسٹ ورلڈ سے شروع کرکے اسے خوبصورت انداز میں رومانویت عطا کرکے پیش کرتے ہیں اور ان سے یہی امید لگاتے ہیں کہ وہ ہماری صف میں کھڑے ہوکر ہماری ہی بات کریں اور ہم سے جڑے رہیں مگر ہم اپنی دھرتی ماں کی حقیقت سے یا تو ناواقف ہوتے ہیں یا پھر آنکھیں چرا لیتے ہیں، نا واقفیت شاید کبھی دور ہو سکے مگر منافقانہ انداز میں جھوٹ پر مبنی قصہ گوٸی کرنا اور حقاٸق پردہ ڈالنا انتہاٸی غلاظت بھرا اور نقصاندہ عمل ہے اور یہ بد کار عمل اجتماعی نقصان کا سبب بنتا ہے۔

بعض اوقات کبھی ہم اس حقیقت سے آشناء ہونے کی کوشش تک نہیں کرتے کہ اس سرزمین کے فرزند کیا سوچ رہے ہیں اور کیوں ان کو راستہ نہیں مل رہا ہے۔ وہ کیوں سیاست جیسے عظیم عمل سے دوری اختیار کرتے ہیں یا پھر سماج میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور جمود کیوں کر برپا ہے۔ ہم ترقی کی بات تو کرتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا بلوچ سماج آگے بڑھ رہا ہے یا ابھی تک ہم 1967 کے زمانے میں ہیں جہاں ہماری سیاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

بانی بلوچ سیاست واجہ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب اپنی زندگی کے شروعاتی دنوں سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحات تک بلوچ سیاست کے ساتھ جڑے رہے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے بلوچ سماج کے اندر عروج اور زوال دیکھا۔ کہیں انہیں اپنے ساتھ کھڑے ہونے والے اپنے رفیق بھی بلوچ کے ہاتھ سے قتل ہوتے ملے، تو کہیں آپ نے اپنے ساتھ کھڑے ہونے والے ساتھی کو مایوس ہوتا ہوا دیکھا۔

زندگی کے اس سفر میں واجہ نے بہت سے عروج اور زوال اپنی آنکھوں سے دیکھے مگر وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے آخری دنوں میں جب آپ سے ملاقات ہوئی تو تب بھی وہ کسی نئی چیز کی تلاش میں تھے تب بھی وہ دیمروئی کے بارے میں سوچ رہے تھے تب بھی وہ اس فرسودہ سماج اور روایتی سیاست سے مایوس تھے اور ان کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے مگر اس کو سننے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی اس کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی مخلص ساتھی تھا۔

وہ جدوجہد کے میدان میں اپنی زندگی کے آخری سانس تک لڑتے رہے مگر افسوس کہ وہ خواب جو اس نے دیکھا وہ پورا تو نہیں ہو سکا مگر اپنی آنے والے نسل کے لیے بہت سی راہیں ہموار کیں اور بنیادی و وزنی سوالات رکھے۔

ڈاکٹر صاحب نے بلوچ سماج کے اندر جس دن اس سیاسی سفر کا بنیاد رکھا آج بھی ہم اسی جگہ پر کھڑے ہیں، یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے۔ شاید اس کو قبول کرنے والا آج کوئی نہ ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ اس سفر میں ہمیں سوائے مایوسی نقصانات اور پیچھے دھکیلنے کے کچھ نہیں ملا۔ وہ سماج آگے بڑھتے ہیں جن کی قیادت میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کریں ایک دوسرے کے لیے راہ ہموار کریں اور سوال کرنے کو اہمیت دیں اور تخلیقی عمل کو ترجیح دیں۔1967 سے لے کر آج تک ہم اپنی حقیقی دشمن کو پہچاننے میں ناکام ہوئے ہیں ہماری جنگ ان جابر اور حاکموں سے زیادہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رہی ہے آج بھی ہم اس گول دائرے میں کھڑے ہیں جہاں 50 سال پہلے کھڑے تھے۔

ڈاکٹر عبدالحئی کی یاد میں گزشتہ دن تعزیتی ریفرینس رکھی گئی جس میں بی ایس اُو کی سابقہ قیادت نے بھر پور شرکت کی اور بڑے احترام سے اپنے محسن کو خراج تحسین پیش کیا۔ یہ بات قابل فخر ہے کہ ہمیں مدتوں بعد ہمیں ہماری قیادت ایک صف میں ایک جگہ پر موجود ملا۔ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالحی کی روح کو سکون ملا ہوگا یہ دیکھ کر کیونکہ وہ زندگی بھر یہی خواب دیکھتا رہا کہ کب ہم ایک ہی صف میں کھڑے ہوں۔ مگر ساتھ میں ہماری سابقہ قیادت پر بھی بہت سارے سوالات چھوڑ کر گیا۔

کاش ہم اپنے اس بزگ سماج کی بزگی کو پہلے محسوس کرتے ہوئے ایک ساتھ کھڑے ہوتے تاکہ ہماری نسل کو اتنے بڑے نقصانات اور بحرانات کا سامنا نہ ہوتا۔ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائیوں کے مسخ شدہ لاشیں نہیں دیکھتے ہم اپنی ماٶں اور بہنوں کو روڈوں پر تڑپتے نہیں دیکھتے ہم اپنے بچوں کو اسکول کے بجائے روڈوں پر پوسٹر لیتے ہوئے نہیں دیکھتے۔

اگر میں ہمت کر کے کہوں تو یہ آپ رہبروں کی غلطیوں اور ناکامیوں کے سبب ہے کہ آج ہم اتنی ازیتیں برداشت کر رہے ہیں کہیں نہ کہیں اس کی زمہ دار آپ ساتھی بھی ہیں کیونکہ آپ ساتھیوں نے بجائے ہماری راہشونی کے اپنی زات اور مفادات کو ترجیح دیا یا پھر جہاں ڈٹ کر بولنا تھا، وہاں خاموشی اختیار کی جس کے سبب ہماری پوری نسل مایوس ہوکر سیاست جیسے عظیم عمل سے دور رہا ہے۔

مگر یہ بات پھر بھی قابل فخر ہے کہ آپ ساتھیوں کو یہ احساس ہوا کہ آپ لوٹ کر واپس اسی جگہ پھر کھڑے رہے جہاں آپ کو بہت پہلے آکر کھڑا ہونا تھا۔ بس یہی ہوا کہ ہم نے وقت ضائع کیا ہم آگے کے بجائے پیچھے چلے گئے اور آج ہمیں پھر شروعات کرنی پڑ رہی ہے امید ہے کہ اس عمل کو تیز کرکے اپنی تاریخی غلطیوں پر نظر ثانی کرکے مسقتبل کے لیے نئی راہیں ہموار کریں گے۔ جس طرح کارل مارکس کہتا ہیکہ؛ شرمندگی بھی ایک انقلابی عمل ہوتا ہے۔ اور اگر ہمیں، ہماری قیادت کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر شرمندگی کا احساس ہوا بھی ہے تو ہمارا یہ سفر راٸیگاں نہیں ہے۔ امید ہے کہ اب یہ قیادت قوم کے ساتھ مزید آنکھ مچولی نہیں کھیلے گی بلکہ ایک نٸی عزم اور نٸے انقلابی جذبے کے ساتھ حاکم کی قتل و غارت اور مظلوم کی آہ و زاریوں پر حساس ہو کر بہترین حکمت عملیاں مرتب کرے گی اور قومی نجات میں اپنا حصہ ڈالے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.