,بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تربت زون کی جانب سے عطاء شاد ڈگری کالج میں ایک روزہ سیمینار بعنوان “بلوچ قومی تحریک میں طلبہ سیاست کا کردار” مرکزی چیئرمین چنگیز بلوچ کی زیرصدارت منعقد کیا گیا۔

بی ایس او تربت زون کی جانب سے ‘بلوچ قومی تحریک میں طلبا سیاست کا کردار’ کے موضوع پر سیمینار منعقد کیا گیا۔ سیمینار کی صدارت چیئرمین چنگیز بلوچ نے کی جبکہ بی ایس او کے مرکزی قائدین میں سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ، مرکزی جوائنٹ سیکریٹری خلیفہ برکت اور بی ایس او کے سابقہ چیئرمین ظریف رند نے خطاب کیا اور اسٹیج سیکرٹری کے فرائض تربت زون کے آرگنائزر سنگت یاور بلوچ نے سرانجام دیئے۔

سیمینار کا باقاعدہ آغاز قومی ترانے سے ہوا، جس کے بعد مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ سماج میں جدید طرز سیاست کی بنیادیں یوسف عزیز مگسی نے فراہم کیں اور بلوچ قوم کو منظم و یکجا کرنے کیلئے ہمنوا ساتھیوں کے ساتھ مل کر پہلی دفعہ سیاسی تنظیم انجمن اتحاد بلوچان کی بنیاد رکھی جسکے بعد منظم سیاسی پلیٹ فارم کے ذریعے بلوچ عوام کی نمائندگی کیلئے راہیں ہموار ہوئیں۔

اسی طرح بلوچ سماج میں طلبہ سیاست کا باقاعدہ آغاز بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں تیزی کے ساتھ بدلتے حالات کے تناظر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ پہلی دفعہ کراچی میں بلوچ نوجوان بلوچ ‌اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن کی بنیاد رکھتے ہیں اور شال میں ورنا وانندہ گل کے نام سے طلبہ تنظیم بنائی جاتی ہے، اسی طرح مکران اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام بھی عمل میں لایا جاتا ہے۔ بعدازاں کراچی میں مرکزی کونسل سیشن منعقد کر کے تینوں تنظیموں کو ضم کیا جاتا ہے اور ملکی سطح پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی تشکیل عمل میں لائی جاتی ہے۔

بی ایس او نے کم عرصے کی مدت میں بلوچ سماج کے وسیع تر حلقوں تک رسائی اور قبولیت حاصل کی اور نوجوانوں کی علمی و فکری تربیت پر زور دیا۔ بی ایس او کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ بی ایس او نے عام عوام کی نمائندگی کی اور سماجی مسائل پر متحرک انداز میں جدوجہد کی۔

بی ایس او کی طویل جدوجہد کے اس سفر میں بے شمار نشیب و فراز اور تجربات سے گزرنا پڑا۔ بی ایس او کو نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی طاقتوں کا بھی مسلسل سامنا رہا ہے اور ہر دور میں بی ایس او کو سامراجی قوتوں اور لوکل نواب و سرداروں نے اپنے تابع کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ مگر بی ایس او نے ہمیشہ ان قوتوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی جو تاہنوز جاری ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد میں طلبہ تنظیم کے ناطے بی ایس او نے ڈرائیونگ فورس کا کردار ادا کیا ہے اور محکوم عوام کو ایک منظم آواز دی۔ جدید قومی سیاست کی تشکیل بھی بی ایس او کی ہی مرہون منت ہے۔ مگر بدقسمتی سے جو سیاسی پراسس تھا وہ مکمل ہونے کے بجائے رُک گیا جس کی وجہ سے قومی ادارہ منظم سیاسی جماعتوں کی شکل میں تشکیل پانے کے بجائے سیاسی گروہوں میں تبدیل ہوگیا جسکا خمیازہ آج دن تک قوم بھگت رہی ہے۔

موجودہ عہد میں بلوچ طلبہ کا قومی سیاست میں مرکزی کردار ہے اور طلباء روز مرہ کی چیلنجر سے نبردآزما ہیں۔ اس کیلئے بی ایس او کو منظم ادارے کے طور پر تعمیر کرنا بنیادی ہدف ہے کہ جس کی تعمیر سے ہی مستقبل کی تحریک کے راستے کھلیں گے اور منزل کی رسائی یقینی بنے گی۔ موجودہ عہد بین الاقوامی سطح پر تحریکوں اور انقلابات کی جانب کروٹ بدل رہا ہے اور اس میں بلوچ سرزمین بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔

بلوچستان کی تاریخی قومی جدوجہد کے ساتھ طلبہ مزدور کسان ماہیگیر اپنی جدوجہد کو منظم کر رہے ہیں اور شعوری جدوجہد کی جانب بڑھ رہیں ہیں۔ اس کی کامیابی تمام سماجی پرتوں کو منظم قومی شعور عطا کرکہ یکجا کرنے سے مشروط ہے اور یہ گراں بوجھ نوجوانوں کو اٹھانا پڑیگا۔

سیمینار کے شرکاء نے اپنے خطاب میں یکجہتی اور اتحاد کی اپیل کرتے ہوئے تمام سیاسی قوتوں کو شعوری جدوجہد کی جانب اپنی توانائیاں مرکوز کرنے پر زور دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.