گُل بی بی بلوچ کی باہمت بیٹیاں

تحریر: محمد جان بلوچ

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم نے کبھی اپنے اوپر بزورِ شمشیر سامراجی ظلم اور قبضہ کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اپنے مادرِ وطن کی حرمت میں پاسبان بن کر اپنے پوتر خون سے ایک تاریخ رقم کردی ہے ۔ اسی طرح بلوچ نے بھی کبھی کسی ناپاک قدم اور جبری تسلط کو اپنی سرزمین پہ تسلیم نہیں کی ہے چاہے وہ عرب کے سکندر اعظم کا لشکر ہویا پھر انگریزوں کی یلغار بلوچ نے ہمیشہ سے اُس یلغار کو روکنے کے لیے اپنے سینہ کو (اسپر ) ڈھال بناکر اپنی سرزمین کا دفاع کیا ہے ۔

ایک صدی قبل پہلی عالمی جنگ 1916ء کے زمانے میں جب انگریزوں نے بلوچستان پر اپنے قبضہ کو برقرار رکھنے کے لیے بلوچوں کے ساتھ جنگ جاری رکھی تو اُس سامراجی قبضہ گیرت کے خلاف بلوچوں نے ایک تاریخی مزاحمتی رول ادا کیا سرزمین کے دفاع کی اس جنگ میں بلوچستان کی ایک بہادر بیٹی گل بی بی کے نام سے ظاہر ہوئی جس کا تعلق مغربی بلوچستان سے تھا ۔

اِس دوران 1916ء میں جرنل ڈاٸر نامی سفاک و چالاک افسر کو اس علاقہ میں بھیجا گیا تاکہ وہ جاری اس بلوچ مزاحمت کو کچل سکے ،جرنل ڈاٸر نے آٹھ ماہ تک یہاں اپنی سازشوں ، ہتھکنڈوں ،مظالم اور لالچوں کا بازار گرم کیے رکھا ۔ اس کے مدِمقابل قول و قرار کے پابند ، راست باز اور آزادی پسند بہادر بلوچ تھے۔

یہی پر ایک خاتون کمانڈر ابھر کر سامنے آٸی جس کا نام گل بی بی تھا وہ نہ صرف خود جنگ میں آٸی تھی بلکہ ان کے ساتھ اور بھی کئی بلوچ عورتیں تھيں وہ جنگی حکمت عملی میں بے مثال مہارت رکھتی تھی ۔

ماما عبداللہ جان جمالدینی صاحب لکھتے ہیں کہ جب میں نے اُنہیں پہلی بار دیکھا ” وہ نسبتاً فربہ خاتون تھی جس نے سینے پہ دوکارتوسوں بھرا پٹہ سجا رکھا تھا اور اس کے کندھے پہ بندوق تھی“
بلوچستان کی سرزمین نے آج بھی ماں گُل بی بی بلوچ کی طرح اُن کی بیٹیوں کو بہادر، باہمت اور ظلم کے خلاف مزاحمت کی صلاحيتوں سے لیس جنم دی ہے۔

یاد رہے بلوچستان کی بیٹی زرینہ مری جو ایک استانی تھی آج بھی لاپتہ ہے جنہیں 2006 کو کوہلو سے ان کے دوسالہ بیٹے مراد کے ساتھ جبراً لاپتہ کیا گیا تھا ، ایک قیدی کے بقول وہاں پہ انہیں جنسی اذیتوں کا سامنا بھی ہوا تھا، جب مجھے ٹارچل سیل میں دیکھا تو کہنے لگی ” میں زرینہ مری ہوں بلوچستان سے تعلق ہے میرا، تو میں رو پڑا نہ جانے کیسی کیسی اذیتیں نہیں سہیں اِس بہادر ماں کی بیٹیوں نے۔

2014 کے اول میں بلوچستان میں جبراً لاپتہ کیے ہوۓ بلوچوں کی بازیابی کے لیے ماماقدیر کی قیادت میں ایک تاریخی پیدل لانگ مارچ کوٸٹہ سے کراچی اور کراچی سے پھر اسلام آباد یعنی 2500 کلو میٹر کا پیدل سفر طے کرنے کے بعد جب اسلام آباد وفاقی دارالحکومت پہنچ گیا تو اُس لانگ مارچ میں ماما کے ساتھ 14بلوچ خواتین تھیں اُن کے ساتھ لاپتہ ہونے والے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی اور ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید بھی تھیں جو اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ اُن ہزاروں بلوچ فرزندوں کی بازیابی کے لیے پیدل لانگ مارچ کرکے اذیتیں سہیں۔ آج بھی سمی بلوچ اور ذاکر کی ماں اپنے پیاروں کے لیے راہ تک رہی ہیں آج بھی وہ اس طویل انتظار میں اذیتیں سہہ رہی ہیں۔

اسی طرح جب 10 جون 2014 کو اس مظلوم قوم پر ایک اور آفت گِر پڑا یوں بلوچ قوم ایک عظیم ہستی سے محروم ہوگئی ، جب انقلابی راہشون نواب خیربخش مری کے جسد خاکی کو کراچی سے بلوچستان کی طرف لایا جا رہا تھا تو راستے میں ہزاروں عورتوں نے گھروں سے نکل کر اپنے لیڈر کو الوداع کہا ، جب ان کے جسد خاکی کو نیو کاہان شہداۓ قبرستان لایاگیا تو وہاں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ خواتین نے اپنے انقلابی راہشون کے جسد خاکی کو ایک مقدس بیرک میں لپیٹ کر نمازِ جنازہ میں بھی شرکت کی اور اُن کے جسد خاکی کو کندھا بھی دیا ۔

بابا مری کو لمہ وطن کی آغوش میں سپرد خاک کرنے کے بعد شہداۓ قبرستان میں ایک ٹینٹ لگادیا گیا جہاں پر بہت سی عورتوں نے بھی، جن کے ساتھ مری بلوچ خواتين کی تعداد بہت زیادہ تھی اپنے راہشون کے لیے فاتحہ لینے بیٹھ گئیں۔

اسی طرح ریاستی ظلم کا ایک اور سلسلہ بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کی صورت میں 2008 کے بعد ملتا ہے جہاں پر طلبا سیاسی رہنما زاہد بلوچ کو جبراً لاپتہ کر دیا جاتا ہے تو وہیں پر ہمیں گُل زمین کی بہادر بیٹی شہید لمہ کریمہ بلوچ متحرک ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جو زاہد کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے 40 روز تک کیمپ لگا کر بیٹھی رہی اور اپنی بلوچ ماں گُل بی بی کے نقشِ قدم پہ چل کر بہادری کے ساتھ آخر تک ڈٹی رہی۔ جب یہاں اس کے لیے اپنا ہی وطن تنگ کیا جاتا ہے تو یہ بہادر بیٹی جلاوطنی پر مجبور ہو کر کینیڈا میں پناہ لیتی ہے ،یوں کریمہ بلوچ اپنی گلزمین کے فرزندوں کی جبراً گمشدگیوں اور ریاستی مظالم کے خلاف بلوچ کی چیخ و پکار اذیت بھری داستان کو ٹورنٹو کی سڑکوں پہ بیرونی طاقتوں کے کانوں تک پہنچانے کے لیے اپنی جدو جہد کو جاری رکھتی ہے۔

تو ظالِم بہادر ماں گل بی بی کی اس بیٹی سے لرز اُٹھتا ہے وہ خوف زدہ ہوکے بلآخر اسے بے دردی سے ٹورنٹو کینیڈا میں شہید کیا جاتا ہے مگر ظالم کو کیا پتہ کریمہ تو آج بھی زندہ ہے وہ فلسفہ بنی ہے ایک سوچ فکر اور نظریہ بنی ہے اس کی خوشبو بلوچ سماج کو مزاحمت کی مہک دیتی رہے گی،
یہ ایک حقیقت ہے کہ قاتل تو انقلابیوں کی لاشوں سے بھی خوف زدہ ہوتا ہے۔

اسی طرح گل بی بی کی بہادر بیٹیوں نے لمہ وطن کریمہ بلوچ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور ان کے نظریات کو اپنایا آج ہر ماں بیٹی جنم دے رہی ہے کریمہ بلوچ کے نام سے۔

اِن واقعات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عورت کمزور نہیں بلکہ انہیں سماجی نفسیات کے ذریعے کمزور بنادیا جاتا ہے ورنہ آپ موقع تو دیں انہیں خدا کی قسم فلسطین کی بہادر بیٹی لیلیٰ خالد، انقلابی روزا لگزمبرگ انسانيت کا درد رکھنے والی سبین اور بلوچستان کی گل بی بی نہ بنیں تو پھر آپ کہیے!

گل بی بی کی بہادر بیٹیوں نے کبھی غلامی کو تسلیم نہیں کی ہے ، سانحہ ڈنُک واقعہ میں بْرمش کی بہادر ماں بی بی ملک ناز نے ڈاکوؤں کے ساتھ بہادری سے لڑتی رہی اور اپنی جان کا نزرانہ پیش کرکے بلوچ سماج کو ایک نٸی زندگی بخشی۔ اسی طرح ہوشاپ کا المناک واقعہ جہاں دو ممعصوم بچے ٕریاستی دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں تو وہی پر ہم شیر زال گل بی بی کا چہرہ دوبارہ اس بوڑھی ماں مہناز بلوچ میں دیکھتے ہیں جو اپنے لرزتے ہاتھوں سے انقلابی وکٹری بنا کر ہوشاب سے شال کا مزاحمتی سفر طے کرتی ہے،

آج اگر ہم غور کریں تو یہی گل بی بی کی بیٹیاں ہمیں بْرمش اور حیات جیسے دل دہلانے والے واقعات کے اوپر سوچنے پہ مجبور کر دیتے ہے یہی بیٹیاں سمی ، مہلب، حسیبہ اور خضدار کی بہادر بیٹی ساٸرہ بن کے ہمارے لاپتہ ہونے کے خلاف آواز اٹھاتی ہوٸی نظر آتی ہیں۔ یا بلوچ عورت کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی کامریڈ کلثوم بلوچ ، بامسار بلوچ سازین بلوچ ، اور مزاحمت کی للکار، سرزمین کی بہادر بیٹی کامریڈ ماہ رنگ اور حوران ، سعدیہ، سازین، گلین و کامریڈ بامسار اور سنگت صبیحہ بلوچ بن کے جدوجہد کرتی ہیں۔

یقین جانیے بلوچ کی تاریخ ایسی کٸی گل بی بی اور بانُک کریمہ بلوچ کی بہادری کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ، عورت بھی اِس سماج کا ایک حصہ ہے وہ بھی ایک انسان ہے لہٰذا موقع دیں گل بی بی کی بیٹیوں کو یہی کردار آنے والی سحر کی کرنوں کے مالک ہیں آنے والے روشن سویرے کی امیدیں ہیں، انہیں سے وابستہ ہے نئی بامسار کی امید، یہی انقلابی بیٹیاں ہیں۔
 

Leave a Reply

Your email address will not be published.