نوآبادیاتی نظام اور بدحال بلوچ

تحریر: آصف نور بلوچ

پچھلے دو سو برس سے بلوچ وطن محکومیت کا شکار ہے، 70 برس قبل حاکم کا چہرہ بدلا ہے مگر حرکتیں، مظالم اور درندگی میں اپنے سابقہ آقا سے بھی گیا گزرا ہے۔ بلوچ وطن کو لہو لہاں کرنے، لوٹ کھسوٹ و درندگی، قتل و غارت اور اجتماعی سزا دینے میں کوٸی کسر نہیں چھوڑی جا چکی۔ ایسی صورت حال میں قتل و بربریت سے نجات کا ذریعہ جن کو بننا تھا وہ خود اپنا حصہ لینے اور اپنی باری کے انتظار میں بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں اور جیبیں بھرتے جا رہے ہیں۔

حاکم کا لوٹ کھسوٹ اور اس سے جُڑی مقامی حاکموں کی چوری چکاری دن بہ دن ترقی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انتشار، عدم استحکام، اور طبقاتی سوال اسی شدت کے ساتھ ابھرتے جا رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ سماج میں ہر قسم کی نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ، ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جس سماج میں دہشت گردی خانہ جنگی راج کر رہی ہو وہاں طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ محکوم و مظلوم قوموں پر جبر اور ان کا استحصال عروج پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال میں محکومی کا جبر اور اذیتیں صبر کرنے والی مظلوم قوموں کے اندر ریاست اور سامراجی استحصال کے خلاف نفرت اور آزادی جیسی نعمت کی جہدوجہد کی شکل نمودار ہونے لگتی ہے جو کہ محکوم قوموں کا ظالمانہ نظام سے نجات پانے کا واحد راستہ ہوتا ہے۔

بلوچ قوم بھی ایک محکوم قوم ہے جس کا استحصال کئی سالوں سے سرمایہ دارانہ و کالونیل نظام کر رہا ہے۔ سرمایہ دار ریاست کی شکل میں بلوچ قوم کے معدنیات کو لوٹتا رہتا ہے اور کبھی مسلح جتھوں کی شکل میں فوجی یلغار اور درندگی کے ذریعے بلوچ وطن کے شہزادوں کو شہید کردیا جاتا ہے۔ اس ریاستی سرمایہ دارانہ نظام نے بلوچ قوم کی معاشی ترقی کے نام پر بلوچ قوم کی معاشی حالت ناگفتہ کرچکا ہے۔

سرمایہ دار میر، سردار اور نواب ریاستی سامراجی استحصال کے ساتھ ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر بلوچ قوم کے استحصال میں برابر کے شراکت دار بن چکے ہیں۔ جو بلوچ عوام کو بار بار یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہم آپ کے مالک ہیں۔ یہی سرمایہ دار ٹولہ قوم کی قومی اشتراکی ملکیت کو اپنے سے بڑے سرمایہ دار کو ذاتی مفادات اور سامراج کی خوشنودی کےلیے بھیج دیتا ہے ۔
جب محکوم قوم ان سے قومی مراعات کا سوال کرتی ہے تو قوم کو غدار اور گستاخی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام نے سماجی نفسیات پر بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنا ڈیرہ ڈال چکا ہے بلوچ سماج کا کوئی عام شخص سوال کی جرأت نہ کر پاتا کیونکہ اِس نظام کے پالنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ بلوچ طبقاتی سماج میں خدائی نمائندہ بن کر بیٹھیں رہیں۔

معلوم نہیں بلوچ قوم کو کس کی بدعا لگ چکی ہے کہ سامراجی نظام نے فرقہ واریت کے روپ میں بھی بلوچ قوم کے استحصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی مذہبی فرقہ واریت کی ہوس نے بلوچ سماج کو نفرت کا مرکز بنا چکا ہے۔ بلوچ سماج میں دو بھائی اسی نفرت کا شکار ہو کر ایک دوسرے کو نوچ رہے ہوتے ہیں فرقہ واریت کے مرض کی وجہ سے محکوم قوم کے اختلافات نفرت انگیز تعصبات سے بھرے پڑے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام و استعماری قوتیں طاقت کے بل بوتے پر بلوچ سماج میں محکوموں کی رائے آزادی چھین چکے ہیں۔

سرمایہ دارانہ و کالونیٸل تعلیمی استحصال تو عروج پر ہے بلوچ بزگ و محکوم سے تعلیم حاصل کرنے کے حق بزورِ طاقت چھین چکے ہیں۔ بلوچ خاک کے بہادر بیٹے تعلیم حاصل کرنے کےلیے سرمایہ دارانہ مخلوط نظام سے مقابلہ کرتا ہے۔ سرمایہ داری کی دی ہوئی سوغات “معاشی بدحالی” محکوم بلوچ کی تعلیم میں رکاوٹ بن جاتی ہے لیکن اس مشکل اور معاشی بدحالی سے بلوچ نوجوان مقابلہ کرکے یونيورسٹيوں تک پہنچ جاتا ہے پھر بدقسمت بلوچ نوجوان حفیظ بلوچ کی شکل میں لاپتہ کیا جاتا ہے اگر گم شدہ ہونے سے انجانے میں بچ بھی جائے تو حیات بلوچ کی شکل میں سامراجی آلہ کاروں کے ہاتھوں اپنی زندگی سے محروم ہوجاتا ہے۔

کالونیٸل طرز سیاست نے بھی مظلوم بلوچ کے استحصال میں حصہ ڈالنے میں کمی نہیں کی ہے۔ یوں تو سیاست بہت ہی مثبت پلیٹ فارم ہے خاص طور پر محکوم اقوام کے لیے لیکن بلوچ قوم کی بد قسمتی یا اشرافیہ کی خوش بختی کہیے بلوچستان میں سیاست کی پلیٹ فارم سے غریب عوام کو خوشحالی و ترقی کے خواب دکھانا اور معدنیات کو لوٹ کر جھوٹے دعوے کرکے مظلوم عوام کا استحصال کرنا ان کا پیشہ بن چکا ہے۔ ان استعماری قوتوں نے سیاست کی حقیقی صورت مسخ کر دی ہے۔ ہمارے کھوکلے سماج میں سیاست دان اس شخص کو تصور کیا جاتا ہے جو سماج میں چوری, کرپشن، لوگوں کو قیدوبند کرکے ان کی حق تلفی کرنا، سماجی فنڈوں کو ایمانداری کے ساتھ کھانا، اور محکوم لوگوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کا ہنر رکھنا، اور اگر یہ ظالم ظلمت کی صفت پر پورا اتر آئے تو وہ بدقسمت بلوچ سماج میں سیاست دانوں کے زمرے میں آجاتا ہے۔

ایسی صورت حال میں یقیناً ایک انقلابی نظریہ و پروگرام بلوچ سماج میں قومی محکومی کی نجات کا محرک بن سکتا ہے تاکہ آنے والی بلوچ نسل اپنی سرزمین پر خود کو ایک ایسے سیاسی و معاشی نظام میں پائے جہاں استحصال و لوٹ مار اور انسانیت کو کچلنے والی نوآبادیاتی قوتوں کے بجائے اعلٰی انسانی اخلاقی اقدار کی حکمرانی ہو اور انسان کو شرفِ انسانیت میسر ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.