بی ایس او: وسیع النظر فکر اور تنگ نظر سیاست

تحریر: اورنگزیب بلوچ

انقلابی آدرشوں کی امین بلوچ طلباء کی نمائندہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے مخصوص روایات، انقلابی اقدار اور سرفروشانہ اصولوں کی وجہ سے دنیا میں عزت و تکریم سے یاد رکھی جاتی ہے۔ اس مقدص ادارے کے سرفروش کارکنان نے انقلابی آدرشوں کی پاسداری کرتے ہوئے تاریخ میں خود کو امر کر دیا ہے۔
بدقسمتی سے بحران زدہ عہد کے اندر نظریاتی سیاست بگاڑ پچھاڑ کی نظر ہو گئی تو کچھ منفی اثرات بلوچستان کی شاندار روایات پر بھی پڑے ہیں جس کی وجہ سے انقلابی سیاست کی جگہ پیداگیری سیاست نے اپنی کھوکھلی جڑیں پھیلانے کی کوشش کی ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بھی عہد کے بحرانات سے متاثر ہو کر مختلف دھڑوں میں منقسم ہوگئی ہے اور بی ایس او کی حقیقی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ لیکن تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود بی ایس او کے نظریاتی سپاہی ادارے کی خودمختاری کا الم بلند کیئے ہوئے ہیں اور مقدس ادارے کو اس کا کھویا ہوا مقام دوبارہ دلانے کی جتن کر رہے ہیں۔ جس سے پیداگیری قوتوں کو بڑی تکلیف ہو رہی ہے اور وہ اپنی اجارہ داری کو بکھرتے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔ اور ایک مخصوص پیداگیری ٹولہ خودمختار تنظیم پر مسلسل ہرزہ سرائی کرتے دکھائی دیتا ہے۔ ان کے تمام تر دعوے اور دلیل سے عاری باتیں سن کر ان کی نفسیاتی شکست واضح نظر آتی ہے۔ آج ان کے ایک مرکزی بیان پر چھوٹا سا جائزہ پیش کرتے ہیں۔

حال ہی میں بی ایس او (بی این پی کا طلبہ وِنگ) کی جانب سے جاری کردہ بیان ان کی سیاسی ناپختگی واضح کر دیتا ہے کہ وہ آخر کس حد تک (بی این پی مینگل) کی چھاتر چھایہ میں بانجھ پن کا شکار ہو چکے ہیں اور کسی مسئلہ پر کوئی سنجیدہ رائے رکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ اپنے بیان کے آغاز سے ہی اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بالائی طبقے کی دفاع میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ نادان موقع پرست کہتے ہیں کہ بی ایس او ان کی جاگیر ہے اور وہ اس نام پر کسی کو سیاست کا حق نہیں دیں گے۔ جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ بی ایس او ہمیشہ حکمران طبقے کی تابعداری سے منکر رہی ہے اور بی ایس او کے اداروں کی بالادستی اور خودمختاری بی ایس او کا بنیادی ستون رہا ہے۔ مگر بی این پی کے طلبہ وِنگ کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ وہ بی این پی کے زیر اثر رہ کر خودمختار ادارے کو یرغمال بناٸے رکھیں تاکہ وہاں سے موقع پرست وطن فروش ٹھیکہ داروں کا فوج تیار کیا جا سکے۔

بی ایس او بلوچ نوجوانوں کےلئے قائم قومی ادارہ ہے جسے کسی غنڈہ گروہ یا (پی ٹی آئی) کے پیرول پر کام کرنے والی جماعت کے تابع نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر آپ دعویدار ہیں تو جرأت کر کہ بی این پی سے علحیدگی اور باقاعدہ طورپر بی ایس او کی خودمختاری کا اعلان کی جرأت کریں تو ہم آپ کی تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے کے متعلق بھی سوچیں گے۔ مگر اس وقت تو آپ خود ایک جماعت کے طلبہ وِنگ سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور پھر بی ایس او بننا، بی ایس او بن کر انقلابی درسگاہ کی خودمختاری کو بحال رکھنا آپ کے بس میں نہیں اب تک۔

وہ الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، روز اول سے اس طرح کے گروہ قوم کے خلاف استعمال ہوئے ہیں۔ بی این پی کے طلبہ وِنگ کے ساتھی اگر ایک تاریخی جائزہ لیں تو جان لیں گے کہ سرداروں اور نوابوں کی تابعداری کرنے والے ہمیشہ قوم کے خلاف استعمال ہوئے ہیں نہ کہ وہ ادارے جو خودمختار حیثیت رکھتے ہوں۔

قوم کو بھٹکانے اور عام بلوچ کی زندگی میں انتشار پھیلانے کی سازش، کوشش اور عوام کے ارمانوں کے ساتھ کھلواڑ کن قوتوں کا پیشہ رہا ہے وہ آج کے عہد میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ قوم کے نام کو استعمال کر کے قوم دشمن و برادر کش رویوں کو پروان چڑھانا بی ایس او کا کام کبھی نہیں رہا ہے۔ انہیں قوم کا انتشار میں مبتلا ہونے کا غم نہیں کیونکہ ان کی ٹھیکہ داری عوام کے استحصال پر کھڑی ہے۔

ان کی جانب سے بڑی بے شرمی اور بلا جھجک سیاسی کارکنوں پر اتنے سنگین اور بے بنیاد الزامات عائد کرنا ان کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کا ثبوت ہے۔ بلوچستان کی سیاست میں عدم برداشت، منافقت، ٹھیکہ داری و ڈنڈا ماری انہی قوتوں کا متعارف کردہ ہے۔ جب کبھی ان کو سنجیدہ سیاسی و نظریاتی مخالفت کا سامنا ہو تو بہت جلد بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور تشدد، گالم گلوچ، اور بے بنیاد الزامات کا سہارا لے کر سیاسی کارکنوں کے خلاف غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔

خود کو قوم پرست کہنے والے یہ موقع پرست ہمیشہ سرداروں کی پگڑیاں بچانے کو اپنا فریضہ سمجھتے رہے ہیں۔ درحقیقیت انقلابی قوم پرستی کے حساس جزبے کو بھی انہی استحصالی قوتوں نے مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ قائدین نے ہمیشہ حاکم کی قوم پرستی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی بقاء قائم رکھی اور آج بھی پاور کوریڈور میں پریشر گروپ کے طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ٹھیکہ داری چل رہی ہے، سرمایہ آرہا ہے، اور دھندے آباد ہیں!

ان کا ظالم اور مظلوم کے مابین قومیت کے تصور میں فرق نہ کرنے کی صلاحیت انہی حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ پھر عمران خان نیازی و قدوس بزنجو کے اتحادی بننے میں بھی کوئی دکت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے انہیں تنقیدی و تخلیقی لوگوں کی بھی ضرورت نہیں انہیں فوجی نما لوگ چاہئیں تبھی ان کو اسٹڈی سرکلز کرنے کے بجائے مہینے میں 4 یا 5 مرتبہ تعلیمی اداروں میں لڑنے کی پریکٹس دی جاتی ہے۔ ٹھیکہ داری بھتہ خوری اور غنڈہ گردی کرنے کےلیے ویسے بھی زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں اس لیے اسٹڈی سرکل، علمی و فکری کام کرنا ان کا درد سر نہیں۔
ان کا ایک ہی کام ہے کہ وہ کسی بھی صورت استحصالی پروجیکٹس میں کچھ حصہ داریاں بٹور کر اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں۔ آج بھی اگر زمینی حقائق پر نظر دوڑائیں تو میگا پروجیکٹس سے لے کر تعلیمی اداروں تک کے ٹھیکوں میں ان کی حصہ داریاں ہیں، بھتہ خوری و ڈنڈا ماری کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے، اخلاقی و کرداری گراوٹ کی انتہا کو پہنچنے کے باوجود کہتے ہیں کہ ہم قوم پرست ہونے کا دعویٰ کر کے ہمیشہ کی طرح عوام کو جھانسہ دیں گے۔ بہرحال، مزید حقیقتوں پر پردہ ان کے لیے ممکن نہ ہوگی۔

بی ایس او کے 22 ویں قومی کونسل سیشن کے موقع پر ان کے چار ساتھی کونسل سیشن کے مقام پر پہنچے۔ جن میں ان کے سیکرٹری جنرل اور ایک مرکزی کمیٹی کے رکن بھی شامل تھے۔ بضد ہوئے کہ سیشن چھوڑ کر ہمارے ساتھ بات کریں۔ ہم نے گزارش کی کہ سیشن کے بعد ملاقات کریں گے مگر انہوں نے جانے سے انکار کیا۔ جس پر جب انکے سیکرٹری جنرل کے ساتھ بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے دوست آپکے سیشن کو سبوتاژ کرنے اور لڑنے آرہے تھے مگر میں نے انہیں فی الوقت روکا ہے کہ پہلے میں بات کرونگا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سیشن میں نام تبدیل نہیں ہوا لہذا اب ہمارے ساتھ کچھ بھی ہوجائے تو انہیں ہم رابطہ کرنے کی کوشش نہ کریں اور وہ زمہ دار نہ ہونگے۔ اس بات کا ذکر انہوں نے اپنے بیان میں بھی کیا ہے لیکن انہوں نے اس عمل کو سیاسی اقدار و روایات کا نام دیا ہے۔ حالانکہ ان نادان ساتھیوں کو یہ نہیں معلوم کہ کونسل سیشن میں اپنی مرضی سے کوٸی مطالبہ مسلط کرکے منوایا نہیں جا سکتا نہ ہی کسی خود مختار تنظیم کے کونسلران کو ان کے چیٸرمین اور سیکریٹری جنرل وغیرہ کے نام کسی مخصوص حویلی سے بھیجے جاتے ہیں۔ بلکہ ایک آزاد اور خودمختار تنظیم کے کونسل سیشن میں کونسلران ہی فیصلہ کرتے ہیں اور بی ایس او کے کونسلران نے نام کی تبدیلی کو مسترد کر دیا۔

ہم نے بی ایس او کے نام کو تبدیل کرنے پر کبھی حامی نہیں بھری تھی اور نہ ہی کسی غنڈہ گروہ کے دباؤ میں آکر اپنے قومی ادارے سے دستبردار ہونگے۔ بی ایس او کسی سردار و نواب کی جاگیر نہیں بلکہ مشترکہ قومی میراث ہے۔ بی ایس او جیسے عظیم قومی ادارے کو بااثر شخصیات کے تابع رکھنے کے تاریخی جرم میں ہم کبھی شریک نہیں ہونگے اور نہ ہی بی ایس او خود کو ان بالادست و حکمران طبقے کا تابع ہے۔ بی ایس او کے نظریات و نام پر کسی قسم کے سمجھوتہ کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں کیونکہ بی ایس او کی خودمختاری پر ہمارا ایمان ہے اور ادارے کی دفاع میں کسی بھی قسم کی قربانی سے منہ نہیں پھیریں گے۔

یہ موقع پرست عناصر سب سے پہلے بی این پی کی تابعداری اور جی حضوری ترک کر دیں بی ایس او کو آزاد اور خودمختار کرنے کی جرات تو کر لیں اس کے بعد بی ایس او کے نام پر کسی کو سیاست کرنے کی اجازت نہ دینے کی دعویداریاں کریں۔ ایک ہی وقت میں آقا اور غلام دونوں کو خوش نہیں رکھا جاسکتا خود ہی فیصلہ کر لیں کہ وہ قوم کے ساتھ کھڑے ہیں یا حاکم طبقات کے ساتھ۔

بی ایس او نے سیاسی گفت و شنید کےلئے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں اور بی ایس او کے ساتھیوں نے کبھی بھی بیٹھنے، بات کرنے اور سیاسی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے سے انکار نہیں کیا ہے اور ہمیشہ سیاسی ہراسانی درگزر کرتے رہے ہیں تاکہ شاید کسی روز ان کے رویوں میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوں لیکن یہ حضرات پارٹی کا وِنگ بن کر اور اپنے سر پر بالادست طبقے کا ہاتھ ہونے کے باعث احساس برتری و تکبر کا شکار ہوچکے ہیں۔

بی این پی کے طلبہ ونگ نے مسائل کا سیاسی حل نکالنے کےلیے کبھی رضامندی ظاہر نہیں کی بلکہ ہمیشہ بدتمیزی سے پیش آئے۔ حال ہی میں بی ایس او کی جانب سے ان کی بدمعاشیوں کے متعلق مرکزی بیانیہ دینے کے بعد ان کے ایک سابقہ مرکزی زمہ دار کی جانب سے بیٹھ کر بات کرنے کی حامی بھری گئی تھی۔ مگر دوبارہ سے بی ایس او مینگل نے مرکزی بیان جاری کر کہ ان سارے بے ہودہ الزامات کو دہرایا ہے اور انہوں نے پھر سے ثابت کیا ہے کہ ان کے پاس الزامات اور کردار کشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ سنجیدہ جواب دینے کے بجائے یہ احمق ساتھٕ اپنے غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ رویوں سے باز نہیں آ رہے اور لگائے گئے الزامات کو ثابت بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان غیر سیاسی و غیر جمہوری رویوں کے خاتمے تک ہم کسی بھی صورت خاموش نہیں رہیں گے بلکہ ملکی سیاست سے لے کر تعلیمی اداروں تک کی سیاست میں ان کی بد کرداریوں کو عوام کے سامنے لاتے رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.