روزا لکسمبرگ: ایک روشن مینار

تحریر: نور بلوچ

آزادی ہمیشہ منحرفین کی آزادی ہوتی ہے“ یہ الفاظ عظیم جرمن سوشلسٹ روزہ لکسمبرگ کی ہیں۔ ہمارے ہاں کیا، دنیا بھر میں ان کو سخت گیر سوشلسٹوں نے عوامی مباحثے سے نکال دیا ہے۔ آج آئیں ان کے زندگی، جہد اور شہادت پر ایک چھوٹی سی نظر ڈالتے ہیں۔

روزا لکسمبرگ 1871 میں پیدا ہوئی، ان کی تاریخِ پیدائش دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ یہ لینن اور ٹراٹسکی کی ہم عصر تھیں۔ یوں تو یہ پولینڈ میں پیدا ہوئیں لیکن کم عمری میں ہی یہ اپنی آزادی چاہتی تھیں۔ لہٰذا یہ بڑی مشکل سے پولینڈ سے نکل کر سویٹزرلینڈ پہنچی۔ یہاں انھوں نے تعلیم بھی حاصل کیا اور ساتھ ہی ساتھ تحاریر بھی لکھے۔ کُچھ ہی وقت میں وہ ایک مقبول انقلابی کی حیثیت سے پورے یورپ میں مشہور ہونے لگیں۔ ان کے سیاسی خیالات انہیں کُچھ سالوں میں جرمنی لے آئیں۔ یہاں پر انہوں نے ایک سوشلسٹ تنظیم میں شمولیت کی۔

ہمارے ہاں عورتوں کو کمزور بنانے کے خاطر بہت سے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ لیکن، روزا لکسمبرگ جو کہ آج سے 100 سال پہلے انقلابی جہد کا حصہ بنیں اُنہیں آپ سوچیں کیا کیا سہنا پڑا ہوگا۔ وہ ایک رَجْعَت پَسَنْد یورپ میں ایک پولش، یہودی اور معذور خاتون تھیں۔ وہ غیر شادی شدہ تھیں اور ان کی زاتی زندگی کو ہمیشہ نشانہ بنایا جاتا رہا۔ لیکن وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح ہر مشکل اور ہر بد تمیزی کا مقابلہ کرتی رہیں۔ میرا ایک دوست کہتے تھے کہ روزہ لکسمبرگ ایک بلوچ تھی۔

وہ بورژوا فیمنزم کو بھی نہیں مانتی تھیں۔ ان کے خیال سے یہ امیر خواتین کے لیے بس مشغلے کا ایک سامان ہے (روزا لکسمبرگ کے زمانے میں خواتین کو ابھی ووٹ دینے کا بھی حق نہیں تھا)۔ اُن کا ایک سخت ترین تنقید رہا ہے لبرل ایلیٹ فیمنزم پر۔ ان کے دور میں خواتین کے ووٹنگ حقوق کے لیے ایک بین الاقوامی سطح کی فیمینسٹ تحریک چلائی جا رہی تھی۔ یہ تحریر روزہ لکسمبرگ کے مطابق کوئی انقلابی تبدیلی کے بجائے عوام کے مجموعی ذہنیت کو الجھانے کے لیے ہے۔ وہ لکھتی ہیں “زیادہ تر بورژوا خواتین جو آج شیرنیوں کی طرح مرد سے آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں یہ کل اُنہیں مذہبی اور رجعت پسند کیمپوں میں بھیڑوں کی طرح رہیں گی”۔

روزا لکسمبرگ بورژوا جنگ ( اولین عالمی جنگ) کی شدید مخالف تھیں۔ ان کے خیال سے یہ ایک سامراجی جنگ ہے جس سے کہ محنت کشوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت یورپ بیشتر سوشلسٹ جماعتیں جنگ میں اپنے ملک کی حمایت کر رہے تھے۔ جرمن سوشلسٹ پارٹی نے اپنے تمام احتجاج جنگ کے دورانیے کے لیے معطل کر دیں تھیں اور روزہ لکسمبرگ نے اُن سے بغاوت کر دی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں اُنہیں تنظیم کے نکال دیا گیا اور کُچھ وقت میں ہی اُنہیں حراست میں لے لیا گیا۔

روزہ لکسمبرگ جب اپنے انقلابی کارروائیوں کی وجہ سے پولینڈ سے فرار ہوئیں تو اُنہوں نے سویٹزرلینڈ میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اُنہوں نے مارکس کے داس کیپٹل پر تنقید کی اور ان کی اپنی کتاب اس کے تنقید پر آئی۔ حالانکہ کہ ان کے کام پر کئی سارے سوشلسٹ دانشوروں نے تنقیدیں بھی کی، ان ناقدین میں لینن اور ٹراٹسکی شامل ہیں۔ اُنہیں پبلک اسپیکنگ میں مہارت حاصل تھی، وہ جرمنی کی سوشلسٹ پارٹی کے انقلابی سکول میں باقاعدگی سے ممبران کی تدریس بھی کیا کرتی تھیں۔

قومی سوال پر وہ لینن کے خیالات سے اختلاف رکھتی تھیں۔ ان کے خیال سے یہ ایک بورژوا خلفشار ہے اور اس سے انقلاب میں دیری پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ مکمل طور پر ایک انٹرنیشنل انقلابی تھیں اور ان کے خیالات کے مطابق کوئی بھی انقلابی لہر اس وقت تک نہیں آ سکتی ہے جب تک ہم قومیتوں سے خود کو مکمل طور پر علیحدہ نہ کر دیں۔ ان کے کافی سارے تحاریر لینن کے خیالات کے مخالفت کے اظہار میں ہیں (لینن اور ٹرسٹکی نے ان کے جوابات بھی دیے)۔

جب روزہ کے اپنے جماعت نے انقلابی خیالات سے دوریاں پیدا کرنے اور پارلیمانی اصلاحات کی جانب سفر کا آغاز کیا تو انہوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی۔ ان کے اس تنقید کو “بیرنسٹین ڈیبیٹ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُنہونے یہ بیانیہ رکھا کہ اصلاحات بلا شبہ ضروری ہیں لیکن انقلابی خیالات سے دوری ہرگز قابلِ قبول نہیں ہو سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ روزہ لکسمبرگ کی تنظیم نے اصلاحات اور پارلیمانی سیاست کو اپنا مقصد بنایا اور روزہ نے تنظیم سے علیحدگی اختیار کر لی۔

اُن کا لینن سے یہ اختلاف بھی رہا کہ وہ “وینگارڈ پارٹی” کی تصور کو یکسر در کرتی تھیں۔ ان کے مطابق حقیقی انقلاب صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب محنت کش خود کانشیئس ہوگا، جب مزدور خود انقلابی ہوگا تب انقلاب آئے گا۔ ان کے خیال میں ایک سینٹرلآئزڈ پارٹی جب انقلاب کو اپنے ہاتھ میں لے گی تو سوشلزم کی روح فوت ہوجائے گی۔ ان کے نظر میں جمہوریت کی بنیادی ضرورت عوامی سطح تک شعور کو پھیلانا ہے۔ انہوں نے لینن کے خیالات کے مطابق لکھا کہ ہمیں عوام کی روشناسی کے کام کرنا چاہیے اور جب وہ خود انقلاب کے لیے نکلیں تو ہمیں اُن کا ساتھ دینا ہوگا، نہ کہ ہم خود اس انقلابی لہر کو استعمال کر کے حکومت کرنے لگیں۔

روزہ لکسمبرگ نے 1918 میں جب روزہ جیل سے باہر آئیں تو اُنہونے دیکھا کہ جرمنی کا ماحول انقلابی خیالات سے شرابور ہے۔ اُنہوں نے سوشلسٹ پارٹی پہلے ہی چھوڑ دی تھی، لہٰذا اُنہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف جرمنی کی بنیاد رکھی۔ اُن کے تنظیم نے کُچھ وقت میں ہی ایک انقلاب برپا کرنے کی کوشش لیکن ان کے انقلاب کو بورژوا اور ان کے سابقہ سوشلسٹ پارٹی نے مل کر دبوچ دیا۔ روزہ لکسمبرگ کو گرفتار کرنے کے بعد بغیر کسی ادلتی کروائے کے ٹارچر کرنے کے بعد سر میں گولی مار دی گئی۔

ان کی شہادت کے بعد بھی ان کے خیالات زندہ ہیں، وہ دورِ حاضر کا انقلابی نوجوانوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کے لیے وہ ایک روشن ستارہ ہیں، ان کے تحاریر، خطوط اور تقریر کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ اُن کا ذکر یہاں کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن، ایک بات طے ہے ان کے انقلابی خیالات نے اُنہیں ہمیشہ کے لیے امر کردیا اور اُن کے لالچی سوشلسٹوں کو دنیا نے خیال آما سے یکسر بے دخل کر دیا۔ عالمی وباء، ماحولیاتی تبدیلی اور رجعت پسندی کے اس دور میں روزہ لکسمبرگ کے انٹرنیشنلاسٹ خیالات ہمیں ایک بہتر دنیا کے جانب بڑھنے کے لیے کافی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ اختلافِ رائے کی وجہ سے ایک دوسرے ہم تعلقات ختم کر دیتے ہیں اس تحریر کو میں لینن کے قول کے ساتھ کرتا ہوں جو اُنہونے روزہ لکسمبرگ کے شہادت کے بارے میں لکھا تھا۔

“تمام تر اختلاف کے باوجود روزہ لکسمبرگ ہمارے لیے ایک شاہین تھیں اور ہمیشہ رہیں گی، اُن کے تحاریر آئندہ نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہونگی”

Leave a Reply

Your email address will not be published.