بے حس پاکستانی ماٸیں

تحریر: فرید مینگل

انسانیت ایک ایسے اجتماع کا نام ہے جہاں بالاٸی 20 فیصد حکمران طبقے کے علاوہ باقی تمام انسانوں کے دُکھ، درد، اذیتیں، رحمتیں، خوشیاں اور آنسو مشترکہ ہوتے ہیں۔ یہ اکثریتی 80 فیصد تقریباً یکساں تکالیف و مشکلات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی کبھار اس مشترکہ درد پر اپنے بالادست حاکم طبقے کے خلاف مظلوم کی ہمایت میں لڑاٸی بھی لڑ لیتے ہیں۔

جب امریکہ نے ویتنام پر اپنی وحشت و درندگی اور قبضہ گیری کو طوالت دی تو امریکہ میں ھزاروں لاکھوں لوگ اپنے ملک امریکہ کی قبضہ گیریت و ویتنامیوں کی نسل کُشی کے خلاف سڑکوں پر نکل آٸے، حاکم طبقے کی مذمت کی اور جنگی کاروبار اور انسان کُشی میں ملوث پینٹا گان کا گھیراٶ کیا۔ صیہونی ریاست اسراٸیل مسلسل فلسطینی عوام کی نسل کشی میں ملوث ہے وہاں بھی عوامی حلقے میرٹز پارٹی کی شکل میں اپنے اسراٸیلی قبضہ گیر حکومت کے خلاف فلسطینیوں کی ہمایت میں مسلسل احتجاج ریکارڈ کرتے آٸے ہیں، امریکہ، برطانیہ اور جرمنی میں عوام اسراٸیل کے ساتھ تعلقات اور اسلحہ کے کاروبار کے خلاف اس بنیاد پر مظاہرے کرتے رہتے ہیں کہ اسراٸیل اس امداد اور اسلحے کو فلسطینیوں کی نسل کشی کےلیے استعمال کرتا ہے اور ھزاروں لوگوں کو اب تک قتل کر چکا ہے۔ وہ اپنے اپنے حکمران طبقے سے اسراٸیل کے ساتھ اسلحہ کے کاروبار کو منقطع کرنے کا مطالبہ بار بار کرتے رہتے ہیں۔

اسی طرح جب فاشسٹ مودی سرکار نے بھارت میں مسلمان مخالف مختلف بِلز پاس کیے، ان بِلز کے خلاف اور اپنے ہم وطن مسلمانوں کی ہمایت میں ھزاروں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آٸے اور اپنے ملک کے عوام و انسان دشمن حاکم طبقے کی مذمت کی، اس کے خلاف جمہوری و انسانی لڑاٸی لڑی۔

لیکن پاکستانی عوام شاید اس انسانی دکھ درد اور مشترکہ اذیتوں کے احساس سے غافل ہے، یہ ایک بے حس، انسانی اوصاف سے محروم 21 کروڑ عوام کا ایک ہجوم ہے، 21 کروڑ اس لیے کہ باقی کے ایک کروڑ اس وقت مسلسل جبر و اذیت اور درندگی کے محاصرے میں ہیں۔ ان کے لیے ان کے وطن بلوچستان کو ایک کھلے جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

اس وقت جبر و درندگی اور وحشت و بربریت کی ایسی کوٸی شکل نہیں جو بلوچستان میں بلوچ عوام پر آزمایا نہیں جا رہا ہو، طلبہ سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگ مسلسل لاپتہ کیے جا رہے ہیں، بہنیں بھاٸیوں کےلیے سڑکوں پر ہیں، ماٸیں بیٹوں کی گمشدگی پر زار و قطار رو رہی ہیں، بیویاں گودی نرگس فیاض کی شکل میں اپنے ہمسفر کو تلاش کرتی پھر رہی ہیں، بچیاں سِمی بلوچ کی شکل میں اپنے والد کو ڈھونڈ رہی ہیں، یہاں تک کہ بلوچستان میں عورتوں کو بھی کوٸی استثنیٰ حاصل نہیں، نورجان کی شکل میں وہ بھی جبر گمشدگی کا شکار بنتی ہیں اور اس کے بچوں کو اپنی ماں کی بازیابی کےلیے سڑکوں پر احتجاجی دھرنا دینا پڑتا ہے۔ اور تو اور بلوچ نسل کشی کا ایسا منظم سامان کیا گیا ہے ڈیرہ بگٹی پیر کوہ میں فاطمہ بگٹی جیسی ننھی پریاں پانی کی عدم فراہمی پر ہیضے کا شکار ہو کر بلک بلک کر جان دیتی ہیں، جی ہاں وہی ڈیرہ بگٹی جس کے سوٸی گیس سے تم نسلوں سے مستفید ہو رہے ہو، جس سے تمہارے چولہے جلتے ہیں۔ یہ گیس تمہاری لوٹمار سے ختم ہونے کو ہے مگر وہاں بنیادی سہولت یعنی پانی تک میسر نہیں۔ اب تک سیکڑوں لوگ ہیضے میں مبتلا ہو چکے ہیں اور 20 سے زاٸد لوگ اپنی جان کھو بیٹھے ہیں۔

تمہارے حاکم کا رویہ تو ہمارے ساتھ 1948 سے نسل کشی اور اٹھاٶ مارو، مسخ شدہ لاش پھینکو والا رہا ہے کہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں کے ساتھ کسی بھی مسلط حاکم کا رویہ ہمیشہ یہی رہتا ہے، لیکن تمہارا اپنا رویہ بھی بلوچ کے ساتھ کبھی دوستانہ اور ہمدردانہ نہیں رہا ہے۔ تم تو ایک گھنٹہ بجلی جانے پر سیخ پا ہوتی ہو، ایک دن سوٸی گیس نہ ملنے پر برتن اٹھاٸے سڑکوں پر نکل پڑتی ہو، ارے تم تو اپنے اپارٹمنٹ میں ایلیویٹر کے چند منٹ انتظار پر بھی اکتاہٹ و پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہوتی ہو، اب ذرا غور کرو وہ ماٸیں، بہنیں جو سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کےلیے ماہ و سالوں سے سڑکوں پر در بہ در ہیں، وہ لمحہ بہ لمحہ اس اذیت و انتظار میں گھٹ گھٹ کر انتظار میں جی رہی ہیں کہ ان کے پیارے کب بازیاب ہونگے۔۔۔۔۔؟ تمہارے بچوں کو عید پر برانڈڈ کپڑے اور جوتے میسر نہ ہوں تو تمہارے پیشانی پر شکن پڑ جاتے ہیں اور اب زرا سوچو ان ماٶں کی کیا حالت ہوگی کہ ان کے معصوم بچے یا تو عید پر خود ہی لاپتہ ہیں یا پھر پیر کوہ میں پانی نہ ملنے پر ماں کی نظروں کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان گنوا دیتی ہیں ان کی تکلیف و اذیت کا کیا حال ہوگا۔۔۔۔۔؟

بلوچ کے ان تمام تکالیف و اذیتوں پر تمہیں احساس کیوں کر نہیں ہوتا، بلوچ بچوں کے اس طرح مرنے اور لاپتہ ہونے پر تمہاری ممتا کیوں نہیں جاگتی۔۔۔۔؟ اپنے حاکم کی بلوچ پر ڈھاٸے گٸے اس جبر و ظلم پر تم کیوں سیخ پا نہیں ہوتے۔۔۔۔۔؟ بلوچ کی اس ابتر حالت پر تمہیں تکلیف کیوں نہیں ہوتا۔۔۔۔؟ ہم جانتے ہیں کہ تم کسی بھی صورت ہمارے لیے اروندھتی راٸے نہیں بن سکتی ہو کہ یہ تمہارے بس میں ہی نہیں، لیکن کیا تم ایک عورت، ایک ماں اور ایک حساس انسان بھی نہیں بن سکتی ہو۔۔۔۔۔؟

Leave a Reply

Your email address will not be published.