فلسفہ اور محکوم دنیا

تحریر: وہید انجمؔ

فلسفہ انسان کی وہ عقلی کاوش ہے جس سے وہ وجود، انسان اور کائناتی اسباب و نتائج کا منطقی کھوج لگاتا ہے جو اپنی سرشت میں علم، آزادی اور اخلاق کا پیغام لیے عالمگیر انسانی تصورات کی تشکیل کےلیے آگے بڑھتا ہے۔ فلسفہ کو “ام العلوم” اِس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ بہ یک وقت طبعی، سماجی اور روحانی علوم کو اپنے سوالات کے ذریعے موضوع بنا لیتا ہے اور یہ صلاحیت بھی رکھتا ہے کہ کائنات کو کُل سے اجزا کی صورت دے یا اجزا سے کُل کو واضح کرنے کی کوشش کرے۔ کوئی بھی علم فلسفہ کے دائرے سے باہر نہیں ہے کیونکہ مادّہ، شعور بلکہ بذاتِ خود “علم” بھی فلسفہ کا ایک بنیادی موضوع ہے ۔

موجودہ دور میں بعض حلقوں کی طرف سے فلسفہ کو زائد المیعاد اور ماضی کا قصہ پارینہ کے بطور متعارف کرانے کی تگ و دو دراصل فلسفہ سے لا علمی کے ساتھ اس کی وسعتوں کے اندازے کا نہ ہونا بھی ہے، ایسے دعوؤں کے پیچھے وہ استعماری فکر سرگرم ہے جو انسانیت کے بجائے محدود مفادات کےلیے علم و تحقیق کے نتائج چھوڑ کے محکوم دنیا کی ذہنی کیفیت کو قابو کرنا چاہتا ہے جس کےلیے وہ محکوموں کے سامنے ٹیکنالوجی کی چمک دمک کو بڑھا چڑھا کے پیش کرکے ان پر یہ واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اب ان کے معاشرتی مسائل کا خاتمہ اور کائناتی فعال حیثیت کا وقت آن پہنچا ہے۔ فلسفہ کو ماضی کا حصہ سمجھ کر حال میں اسے نظر انداز کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ کیا آج اعلیٰ انسانی اقدار، آزادی، جمہوریت اور عدل و انصاف کا سوال وجود نہیں رکھتا ؟ فلسفہ اپنے ان سارے لوازمات کو چھوڑ کر فلسفہ کہلانے کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے ؟

دراصل فلسفہ اپنے پاس علم و آگاہی کی روشنی پھیلانے کا سب سے سادہ اور آسان پہلو رکھتا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ فلسفیانہ مکالمات کےلیے کوئی رسمی بناوٹ و نصاب کی کوئی حد مقرر نہیں۔ عموماً یہ غلطی کی جاتی ہے کہ فلسفہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں ان کے اساتذہ اور طلبہ کا موضوع ہے جس کےلیے بڑی بڑی زبانوں اور موٹی موٹی اصطلاحات سے واقفیت نہ ہو تو فلسفہ کارآمد نہیں ہو سکتا، حالانکہ یہ بھی محکوم عوام کو فلسفہ سے محروم رکھنے کی غیر ضروری شرط ہے۔ اِس بات کے محرکات میں سے ایک یہ ہے کہ محکوم دنیا میں فلسفہ اور فلسفہ کی تاریخ کو ملا کر فلسفہ کا نام لیا جاتا ہے، لیکن فلسفہ کی تاریخ فلسفہ نہیں ہے جس طرح سیاست اور سیاست کی تاریخ مربوط حالت میں بھی الگ مزاج رکھتی ہیں۔

فلسفہ پہ ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ یہ لا ینحل سوالات کا سلسلہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ فلسفہ صرف سوالات اٹھانے کا نام نہیں اور نہ ہی فلسفیانہ سوالات معمولی نوعیت رکھتے ہیں، جس طرح یہ سوال اٹھانا کہ: کائنات اور انسان کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟ بہ نسبتِ اس سوال کے کہ: اکبر اور کمال کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟ اول الذکر فلسفیانہ روح رکھتا ہے ثانی الذکر فلسفیانہ روح سے خالی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسفہ آفاقیت پر متوجہ ہوتا ہے اور چیزوں کی یونیورسل توجیہہ پیش کرتا ہے۔ محکوم کو فلسفیانہ کلچر سے دور رکھنے میں تعصب، گروہی مفادات کا تحفظ اور فلسفہ کو غیر علمی ذرائع سے بیان کرنے کی وجوہات پائی جاتی ہیں، کیونکہ فلسفہ کےلیے ذہنی آزادی اور تنقیدی فکر لازمی حیثیت رکھتی ہیں جو قابض کو ہضم نہیں ہوتیں۔ محکوم دنیا کے طلبہ کو فلسفہ میں عملی حالت کے ساتھ داخل ہونے کے بجائے ریاستی ساخت کے اندر تاریخِ فلسفہ پڑھائی جاتی ہے۔ اِس لیے آپ کو فلسفہ کے ہزاروں طلبہ اور اساتذہ ملیں گے جو اپنی تخلیقی سوچ کی آفاقی توجیہہ پیش کرنے کے بجائے فلسفیوں کا حوالہ دیں گے حالانکہ فلاسفہ کے خیالات پیش کرنے سے کوئی فلسفی نہیں بن سکتا اور نہ ہی فلسفیانہ افکار پڑھانا اپنی ماہیت میں فلسفہ ہے بلکہ تاریخِ فلسفہ ہے جو عمومی معنوں میں فلسفہ کے بطور مشہور ہے ۔

اب یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا کوئی فلسفی پیشتر فلسفیانہ نظریات سے آگاہ نہ ہو؟ ہم سمجھتے ہیں کہ نہیں، بلکہ فلسفی فلسفیانہ روایت و کلاسیک کی معلومات بھی رکھ سکتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ پڑھا بھی سکتا ہے۔ لیکن اس کا اپنا فلسفہ وہ نہیں ہوتا جو نصاب سے پڑھاتا ہے، مجموعی صورتِ حال یہ ہے کہ مدارس میں فلسفہ و منطق پڑھانے والے فلسفی ہونے کے بجائے فلسفہ کے استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ غور و فکر میں وہ “تشکیک” کے بجائے “تیقن” کے دائرے میں ہوتے ہیں ، اسی طرح یونیورسٹیوں میں شعبہ فلسفہ، فلسفہ کے استاد اور طلبہ کا گڑھ ہے، فلسفیوں کا نہیں ۔ فعال اور نتیجہ خیز فلسفیانہ خیالات کا تعلق ٹھوس حالات سے ہے اسی لیے فلسفہ کو باہر کی دنیا میں ترجیح دینے کے بجائے بند کمروں میں ذہنی عیاشی کا ذریعہ بنایا گیا جس کے نتیجہ میں فلسفہ مسائل کے حل پیش کرنے کے بجائے صحیح معنوں خود میدان میں نہیں ۔

فلسفہ بلا تخصیص ہر غور و فکر کرنے والے انسان کےلیے اپنے دروازے کھولتا ہے اور فلسفیانہ فکر سے لیس انسان فطرت اور معاشرتی مسائل کی گہرائیوں میں جھانکنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ، اسی لیے تو فلسفہ عظیم ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے فلسفہ کو ایک تاریخی یادگار کے طور پر پیش کرکے موجودہ معاملات میں اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے ، اگر چند ایک جگہوں پر فلسفیانہ خیالات زیرِ بحث آتے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ ان مباحث میں علم اور عمل کی وحدت کی کیا نوعیت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ صرف علم کو منطق کے لبادے میں اوڑھ کر پیش کرنے سے سماجی مسائل میں اس کی خودمختار حیثیت واضح نہیں ہوسکتی جب تک کہ منطقی فکر تجسیم ہوکر معاشرتی عمل میں مداخلت نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کے نزدیک فلسفہ خواص کا سبجیکٹ ہے اور وہ اسے اپنے سے برتر علمی موضوع خیال کرتے ہیں، حالانکہ عام آدمی پر یہ ایک مسلط کردہ تصور ہے اور فلسفہ کی فطرت کے خلاف بات بھی۔

اکثر استعماری قوتیں اپنے ہی نظریاتی ڈھانچہ کے ذریعے علمی مضامین کو کتابوں، انٹرنیٹ اور لیکچرز کی صورت میں پیش کرتی ہیں جس سے لوگوں میں تخلیق، تحقیق اور جستجو کے خیالات پنپنے کے بجائے سہل پسندی اور “کام نکالو” کی نفسیات ابھر رہی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی انسان کی ذہنی آزادی کو چھیننے کا ایک حربہ ہے ۔ مقبوضہ دنیا میں بالائی طاقتوں کی حکمت عملی سے فلسفہ کی حالت بھی یہی ہے کہ آج وہ کتابوں، انٹرنیٹ اور دوسرے ذرائع کے کونوں میں منجمد پڑا ہے، اور اتنا بڑا علمی مضمون امتحان پاس کرنے تک اہم رہ چکا ہے ساتھ میں فلسفیوں کو داستان کی طرح یاد کروا کے عوام کی حقیقی زندگی سے فلسفہ خارج کر دیا گیا ہے ۔ طاقتور گروہوں کا عوام کو یہ خوشخبری سنانا کہ اب ان کےلیے علم کا حصول آسان بنتا جا رہا ہے دوسرے الفاظ میں ان کے پروجیکٹ کی تشکیل محکوم کے ذہن میں ہو رہی ہے۔ جس کی پیچیدگیوں میں اتر کر اس کی شناخت کرنا فلسفہ کے بغیر کسی اور علمی شعبہ کے بس کی بات نہیں ۔

انسانی خیالات کی تشکیل فطرت اور سماج میں موجود افعال و مظاہر سے ہوتی ہے یعنی انسانی خیالات مادّے کا عکس ہیں اسی کے سبب انسان کا کوئی بھی خیال مادّہ سے پرے وجود نہیں رکھتا کبھی تخیل مجسم ہوکر کائنات پر اثر انداز ہوتا ہے کبھی مادّہ خیال کی تشکیل کرتا ہے، یوں انسان کی ساری منطق فطرت اور سماج سے اخذ شدہ ہے لیکن تفکر کے اس آرٹ کو منصوبہ بندی کے تحت عوام کی پہنچ سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور فلسفیانہ ذمہ داری ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو علم و عمل کے اتحاد ، فطرت اور معاشرت کے کُل میں جذب ہونے کے بجائے تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں اور اپنی کوئی عملی حیثیت نہیں رکھتے۔ اسی طرح سماجی تبدیلی میں محکوم عوام کے کردار کو غیر اہم سمجھ کر ان کے درمیان علمی مکالمہ و فلسفیانہ فکر کا ماحول پیدا ہونے نہیں دیا جاتا ہے۔ یوں زور آور مظلوم کی نادانی و نا آشنائی سے فائدہ اٹھا کر اسے اپنے اصل کردار سے آگاہ ہونے نہیں دیتا۔

استعماریت اپنے نظامِ تعلیم میں فلسفہ کو بطورِ علمی شعبہ شامل کرکے محکوموں پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ ذہنی آزادی اور تنقیدی سوچ کی حمایت میں یہ سب کچھ کر رہی ہے، حقیقت میں وہ فلسفہ کے نام پر “فلسفہ مخالف” نظام کی جڑیں مضبوط کرنا چاہتی ہے، وہ فلسفہ کو جمودی شکل دے کر اپنی مشینری کے اساتذہ ، نصاب، لیکچر اور مواد کے ذریعے غلام کے حافظہ میں بند کرنے پر عمل پیرا ہوتی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ مسلط گروہ فلسفیانہ تاریخ کی کتابیں، اساتذہ، لیکچر اور مواد کو اپنے لیے خطرہ محسوس نہیں کرتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ یک طرفہ و حاکمانہ تدریسی عمل فلسفہ کو سماجی حلقوں میں مقبول ہونے نہیں دے گا ۔ اِس نظامِ فلسفہ کی اصلیت اس وقت واضح ہو جاتی ہے جب کوئی متجسس ذہن مدلل سوالات کے ساتھ اس کے اندر اترتا ہے تو اسے ہر طرح سے خاموش کرانے یا راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

ایسا دوغلا نظامِ فلسفہ انسانیت کے بجائے گروہی مفادات کو ترجیح دیتا ہے، بظاہر آپ کو اس فلسفیانہ ڈسکورس میں نامی گرامی دانشور بڑے بڑے ڈگری ہولڈر ملیں گے لیکن ان کا خام فلسفہ کسی کائناتی و سماجی حقیقت سے عملی آہنگی سے قاصر ہوگا۔ اس طرح بالائی طاقتیں عام آدمی کو آگاہی سے دور لے جا کر اس کی مفعولی حالت کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ انقلابی دانشور اور عوام دوست علمی شخصیات فلسفیانہ مکالمہ کو عوامی مجالس کا حصہ بنانے کی جدوجہد کریں، اور محکوموں کو شعوری طور پر فلسفیانہ زاویہ نگاہ کی جانب راغب کریں کیونکہ مسلط فلسفیانہ آرڈر عوام کو “حصہ دار” بنانے کے بجائے “استعمال کرنے والے” کے بطور لے رہا ہے ، تنقیدی مکالمات میں ساتھ چلنے کے بجائے محکوم کو ہانکنے کی کوشش کر رہا ہے ، ایسے میں اس کی ذہنی آزادی و تنقیدی فکر کے کوئی معنی نہیں ہوتے ۔ محکوم دنیا کو آزادی بخشنے والے ہتھیاروں میں سب سے طاقتور ہتھیار فلسفہ ہے غالب قوت اس کو دبانے کی کوشش کرے گی کیونکہ اس سے اس کے وجود کو مٹنے کا خطرہ ہے لیکن محکوم اس ہتھیار (فلسفہ) کے ذریعے اُس پر شدت سے وار کر سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس یہ اعلیٰ قوت نہیں ہوتی وہ اس کو محض چند مفادات کے حصول کےلیے کام میں لانا چاہتی ہے انسانی آزادی کےلیے نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.