بی ایس او اوتھل زون کا “سینئر باڈی اجلاس” زیر صدارت زونل صدر کامریڈ بامسار بلوچ منعقد ہوا، جب کے مہمان خاص چیئرمین چنگیز بلوچ تھے۔

ترجمان بی ایس او اتھل زون

بلوچ اسٹوڈنس آرگنائزیش اوتھل زون کا سینئر باڈی اجلاس زیر صدارت زونل صدر کامریڈ بامسار بلوچ منعقد ہوا، جس کے مہمانِ خاص مرکزی چیئرمین چنگیز بلوچ تھے۔ اجلاس میں زُونل رپورٹ، مُلکی و بین الاقوامی تناظر، تنظیمی امور اور آئندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے، جبکہ اجلاس کی کاروائی زونل جنرل سیکرٹری سجاد بلوچ نے چلائی۔

اجلاس کا باقاعدہ آغاز شُہدائے بلوچستان اور دنیا بھر کے انقلابیوں کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا، بعد ازاں زونل ممبران نے اجلاس میں بھر پور شرکت کرتے ہوئے تناظر اور تنظیمی امور کے ایجنڈوں پر مفصل بحث کی، جس میں زونل رپورٹ، ملکی و بین الاقوامی تناظر، تنظیمی امور، تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کا لائحہ عمل کے ایجنڈے شامل تھے۔

اجلاس میں زونل رپورٹ پیش کرتے ہوئے زونل جنرل سیکرٹری سجاد بلوچ نے زون کی مختلف سرگرمیوں پر روشنی ڈالی اور کیڈر سازی کے عمل کو مضبوط بنانے میں زون کے ممبران کو سراہا۔ رپورٹ میں انہوں نے تربیتی سرکلز کے مسلسل اہتمام کو سراہتے ہوئے زون کی سرگرمیوں میں مذید اضافے کی تجاویز رکھی۔

ملکی و بین الاقوامی تناظر پر بحث کرتے ہوئے شرکا نے کہا کہ موجودہ وقت میں بین الاقوامی معیشت اوراس کے ساتھ عالمی سطح پر سیاست بھی مختلف قسم کے ناقابل مصالحت تضادات کا شکار ہے۔ دولت کا چند افراد اور کارپوریشنز کے پاس مرکوز ہوجانا اور نئی جنگوں کے آغاز نے عوامی سطح پر شدید بے چینی کو جنم دیا ہے، جو کہ سیاسی تحرک کا باعث بھی بن رہی ہے۔ محکوم اقوام اور پسے ہوئے طبقات کی جانب سے اٹھتی ہوئی تحریکوں نے عالمی سطح پر سامراجی عزائم کو نئی پالیسیز اور اتحاد بنانے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں نئی صف بندیاں بھی ہورہی ہے، جو ورلڈ آرڈر میں تبدیلی کا باعث بن رہی ہے اور چین اور روس جیسے ممالک کے اثرو رسوخ میں اضافہ سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات میں مذید اضافہ کرے گا۔ ان سامراجی ملکوں کے عزائم کو شکست دینے کیلئے ضروری ہے کہ تمام تر محکوم قومیتوں کو یکجاء ہوکر اپنی تحریکوں کو ایک انقلاب رخ دینا ہوگا۔

زونل اجلاس میں یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ملکی سطح پر بھی ہمیں یہی تضادات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کا حکمران طبقہ سامراجی ممالک سے قرضے وصول کررہا ہے اور اس کے بدلے سامراجی ممالک تیسری دنیا کے ممالک پر مختلف چھوٹے بڑے منصوبوں کے ذریعے تسلط قائم کیے ہوئے ہیں۔ ساحل وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور قتل عام کے ذریعے محکوم اقوام کو مذید پستیوں کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ عام عوام اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے مسلسل تحریکیں جنم دے رہی ہے تاکہ اپنی زمین پر اپنی حق حاکمیت منوا سکے۔

مزید ازاں بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے اراکین نے کہا کہ بلوچستان میں بھی سامراجی قوتوں کی مداخلت اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں سامراجی قوتوں کے خلاف مختلف قسم کے تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ بلوچستان میں بڑھتے ہوئے انقلابی طوفان نے مغرب سے مشرق تک بلوچستان کو چاروں دشائؤں سے گھیرے میں لے لیا ہے۔ اس انقلابی طوفان کی شدت دن بدن بڑھتی جارہی ہے، جو بلوچستان کے مغربی علاقوں سے شروع ہوکر مشرق میں کوہ سلیمان، ڈیرہ جات تک جا پہنچا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بکھری ہوئی قوتوں کو یکجا کر کے ایک سیاسی پلیٹ فارم پر منظم قوت کی صورت دی جائے۔ تاکہ عوامی جذبات ایک شعوری شکل اختیار کر اپنے حقوق کے حصول کو ممکن بنا سکے اور سامراج کے خلاف ایک موثر تحریک پروان چڑھے۔

اسی اثناء میں تنظیمی قائدین نے نوجوانوں پر زور دیتے کہا کہ قومی سطح پر ہمیں ایک سیاسی خلاء نظر آرہا ہے جس کو پُر کرنے کے لیے ہمیں مسلسل ہر محاذ پر محو جستجو رہنا چاہیے تاکہ قومی سطح پر سیاسی خلاء کو پُر کرتے ہوئے ہم ایک منظم و متحد قوت بنانے میں کامیاب ہو اور بلوچ سماج کی تمام تر بکھری ہوئی پرتوں کو یکجاء کر سکیں۔

بعد ازاں تنظیمی امور کے ایجنڈا پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے  اراکین نے یہ فیصلہ لیا کہ  تنظیمی سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے ہمیں تنظیمی ڈھانچے کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے ۔

آخر میں آئندہ کے لائحہ عمل پر بات کرتے ہوئے فیصلہ لیا گیا کہ ممبران کو زہنی طور پر پختہ بنانے کے لیے ہفتہ وار سٹڈی سرکل کے سلسلے کو برقرار رکھنا چاہیے اور مزید اوتھل میں تنظیمی پروگراموں کا قیام بھی عمل میں لانا چاہیے جس سے جامعہ لسبیلہ اور باقی دیگر کالجز کے طلباء و طالبات علمی و ادبی افکار سے آشنا ہو کر جدوجہد کا حصہ بنے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.