بی ایس او اوتھل زون کے زیر اہتمام تربیتی نشست کا انعقاد، مرکزی چیئرمین چنگیز بلوچ نے لیڈ آف دی۔

ترجمان اوتھل زون۔

بی ایس او اوتھل زون کی جانب سے چیئرمین چنگیز بلوچ  کی سربراہی میں اپنے ممبران کے بیچ ایک روزہ تربیتی نشست کا انعقاد کیا گیا، جس میں سیاسی اصطلاحات اور ان کی اہمیت کے موضوع پر بحث ہوئی۔

تربیتی پروگرام کا آغاز قومی شہداء کے یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔ تربیتی سیشن کے ابتداء میں اسپیکر نے انسانی تاریخ اور بین الاقوامی تناظر  کا مختصراً جائزہ لیا اور سیاسی اصطلاحات ان کے معنی، اور زماں و مکان میں اسے سمجھنے کے زاویوں پر سیر حاصل بحث کی۔ بعد ازاں انہوں نے مختلف سیاسی اصلاحات پر بحث کو آگے بڑھایا، جس میں انہوں نے سوشلزم،  نیشنلزم  اور باقی ٹرمنولجیز پر بات رکھی۔

جس میں انہوں نے کہا کہ سوشلزم میں بہت سے رجحانات ہیں، جن میں بہت کچھ مشترک اور بہت سے متضاد خیالات بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن سوشلزم کو سمجھنے کے لیے اس کی سیاسی تاریخ کو جاننا بھی انتہائی ضروری ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سوشلزم اور کمیونزم کارل مارکس کی تخلیق ہے۔ اس کی بجائے سوشلزم یا اشتراکی نظام کے خیالات اس سے بہت پہلے بھی رہے ہیں اور مارکس نے خود اس وقت کے کئی مفکرین کے سیاسی و معاشی خیالات کو اپنی تھیوری کا حصہ بنایا اور ویسے ہی آگے لینن، گرامچی اور سارتر جیسے بیشتر انقلابی مفکرین نے سوشلزم کی تھیوری میں اپنے تجربات کا اضافہ کیا ہے۔

اسی طرح محکوم اقوام کے قومی سوال نے بھی سرمایہ دارانہ نظام کے برعکس سوشلسٹ رجحانات کو ہی اپنی بقا کا نظام پایا، اور ہو چی من سے لے کر کاسترو اور اوکلان سے لے کر خیربخش جیسے رہنماؤں نے قومی سوال اور عالمی سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد کو مربوط کر جدوجہد کو آگے بڑھایا

۔ اس کے ساتھ ہی بحث میں نیشنلزم کے نظریے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سپیکرز نے سولہویں صدی کی یورپی تحریکوں اور بیسویں صدی کی قومی تحریکوں کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا میں تبدیلی کی خواہش میں سینکڑوں تحریکیں چلی ہے، اور اپنے وقت اور حالات کے مطابق قوموں نے اپنے مفادات میں نظریاتی بیانیے کو ڈھالا ہے۔ سوشلزم، انارکزم یا نیشنلزم ضروری نہیں کہ ایک دوسرے کے تضاد میں کھڑے ہو بلکہ وہ عوامی تحریکوں کے ایک دوسرے کے مددگار بھی ہوسکتے ہیں۔

مزید اسپکیر نے  نیشنلزم کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ نیشنلزم، جاگیرداری کے خلاف ایک نئی تحریک تھی جس نے محکوم عوام کو جاگیردارانہ سماج سے نجات کیلئے قومی سطح کی جدید ریاستوں کی تشکیل کی جانب راغب کیا۔ اس عہد میں تمام سیاسی و سماجی اسٹرکچرز میں مؤثر تبدیلیاں رونما ہوئی جو کے جاگیرداری کے نسبت کافی جدید تھی۔ مختصراً سرمایہ داری جاگیرداری کے نسبت ایک ترقی پسند تحریک و نظام ابھر کے سامنے آیا، مگر سرمایہ دارانہ نظام جس کی معیشت و طرز زندگی محکوم اقوام کے استحصال پر مبنی تھی۔ اس نظام نے سامراجیت کو جنم دیا جس نے بلوچستان سمیت دنیا کے دیگر اقوام کو محکوم بنایا اور ظلم و استحصال کی انتہا کردی۔ اس اثنا میں بیسویں صدی میں محکوم اقوام کی تحریکوں نے نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اور ایک جدید قوم پرستی کی بنیادیں تبھی سے ترقی پاتی آرہی ہیں، جس کی ایک بہترین مثال کرد تحریک ہے۔

قومی تحریکوں کی تاریخ میں بلوچ قوم بھی مسلسل محکومیت کے خلاف برسرِ پیکار رہی ہے، اور اپنے عہد کے ساتھ ہم پلہ جدوجہد کو پروان چڑھایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تربیتی نشست میں اصطلاحات کے معنی اور تشریح کو بھی زیر موضوع لایا گیا کہ اصطلاحات مختلف زمان و مکان میں اور مختلف رجحانات میں اپنی مختلف تشریحات و معنی رکھتی آئی ہیں۔

اس وقت بلوچ قومی جدوجہد میں ضروری امر ہے کہ ہم بلوچ سماج کا ایک سائنسی تجزیہ کریں اور اس بنیاد پر بلوچستان کا اپنا سیاسی ڈسکورس پیش کریں، جو بلوچ جہد کو مذید منظم کر آگے کی جانب بڑھائے۔ تربیتی نشست کے اختتام پر چیئرمین چنگیز بلوچ نے بی ایس او اوتھل زون کے تمام ممبران کو تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او ایک کیڈر ساز ادارہ ہے اور سیکھنے کے عمل کو برقرار رکھتے ہوئے آگے کے لائحہ عمل طے کیے جائیں اور بی ایس او کی نظریاتی اساس پر جدوجہد کو منظم و مضبوط کیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.