تحریک فروشی کا کاروبار

تحریر: فرید مینگل

بلوچ وطن جہاں قبضہ گیروں کی للچاتی نظروں اور ان کے ناپاک قدموں کا گزشتہ 200 سالوں سے سامنا کر رہا ہے تو وہیں اس پاک پوتر دھرتی کے لال اس وطن کی رکھوالی کےلیے سر دھڑ کی بازی لگاتے آ رہے ہیں۔ 1839 کے شہید لالین خان محراب خان ہوں کہ 2020 کے اواخر میں وطن پر جان نچھاور کرنے والی لمہ وطن شہید بانک کریمہ، اس وطن کے بچوں نے ہر بیرونی قوت اور نوآبادیاتی طاقت کو روکنے، پیچھے دھکیلنے اور وطن کو نجات عطا کرنے کی پوری کاوش کی ہے۔ اور اسی کاوش میں اب تک ھزاروں بچے اور بچیاں مشکلات و مصیبتوں کا سامنا کر کے اپنا لہو بھی بہا چکے ہیں اور لاپتہ ہو کر غاصبوں کے کالے پانیوں، کال کوٹھڑیوں، کُلی کیمپوں اور عقوبت خانوں کو آباد کر چکے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، اس لیے کہ وطن محکوم ہے، وطن غیروں کی یلغار میں ہے، اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری و ساری رہے گا جب تک مادر وطن کی فضاٶں میں نجات کی خوشبو نہ مہکے، جب تک وطن بیرونی و اندرونی یلغاریوں سے پاک نہ ہو، جب تک وطن پر ایک آزاد اور منصفانہ سماج کا قیام ممکن نہ ہو۔

نو آبادیاتی خطوں میں حاکم ہر اس قوت و طاقت کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اس کی حاکمیت و بالادستی کو زرا سا بھی خطرہ محسوس ہوتا ہو۔ بلوچ وطن پر بھی حاکم کی کارستانیاں ایسی ہی رہی ہیں۔ وہ مسلسل ہر اس آواز و للکار کو گھونٹتا رہا ہے جس نے وطن وطن کر کے سینہ کوبی کی ہو، آہ و زاری کی ہو اور وطن کے رکھوالی کی کوشش کی ہو۔ ان آوازوں اور مزاحمتی کرداروں کو کبھی پھانسی کے پھندوں کی نظر کیا گیا ہے، کبھی ان کے سینوں میں آگ اگلتی بندوقوں سے بے شمار گولیاں پیوست کی گٸی ہیں اور کبھی انہیں لاپتہ کرکے برس ہا برس عقوبت خانوں کی نذر کیا گیا ہے۔

دوسری جانب بلوچ کے شعور کو زخمی کرنے، لہو لہان کرکے مسخ کرنے کےلیے حاکم نے یہاں مذھبی انتہا پسندی کے بارودی سرنگ بچھانے کی کوشش کی، کسی کو جماعتہ الدعوہ کا فرنچاٸز دیا تو کسی کو لبیک کی سربراہی عطا کی، کسی کو ریاستی سرپرستی میں مسلح کیا تو کسی کو پرامن تبلیغ کے ناٹک پر لگادیا، مقصد ایک تھا کہ بلوچ کے وطن سے مذھبی رواداری کو ختم کیا جاٸے، اس کے اجتماعی انسانی شعور کو مذھبی شدت پسندی سے زہر آلود کیا جاٸے اور اسی حکمت عملی کے تحت بلوچ کو کچل کر اس کی شناخت اور مزاحمتی نفسیات تک کو مٹایا جاٸے۔

حاکم یہ ساری وحشت و بربریت کی نِت نٸی داستانیں اور حکمت عملیاں اس لیے مرتب کرتا رہا کہ وہ اپنی تسلط کو برقرار رکھ سکے، محکوم وطن کو طویل عرصے تک تاراج کر سکے اور وطن و قوم کی مجموعی شناخت کو مٹا کر اپنی بالادستی کو مضبوط و مستقل کر سکے۔

لیکن زندہ اقوام تو پھر حاکم کی ان تمام تر جبری و استحصالی خواہشوں اور مرضی و منشا کے مطابق نہیں چلتے نا، وہ بھی تو اس بربریت و وحشت کے خلاف نِت نٸے تجربات کرکے سینہ سپر ہوتے ہیں، مزاحمت کرتے ہیں اور مختلف طریقوں سے وطن کی رکھوالی کا کام سر انجام دینے کی جتن کرتے رہتے ہیں۔

بلوچ قوم بھی ایک ایسی ہی نیک اور انسانی جتن میں مصروف عمل قوم ہے اور حاکم کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے وطن کی رکھوالی کے ترانے و گیت گا رہا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ حاکم تمام انسانی اصولوں کی پاسداری کیے بغیر سب کچھ تاراج کرنے کے چکر میں ہے، انسانی اصول تو در کنار اپنے ہی اصولوں کو بناٸے جارہا ہے اور انہیں بھی مسلسل روندتا جا رہا ہے۔ مگر بلوچ ہے کہ رکتا نہیں، بلوچ ہے کہ اس کی ناجاٸز حاکمیت مانتا نہیں، یہی بلوچ ہونے کی قیمت ہے اور یہی بلوچ ہونے کی خاصیت بھی تو ہے۔ حاکم نت نٸے حربے آزماٸے جا رہا ہے اور محکوم بلوچ حاکم کی ہر چال اور ناٹک کو ناکام بناٸے جا رہا ہے۔

بلوچ کے اس نیک انسانی کاوش کا بدلہ حاکم نے بھرپور دیا، نسل کشی پر مبنی وحشت ناک اعمال کیے، ھزاروں کو قتل کیا گیا، سیکڑوں کو مسخ شدہ لاش بنا دیا گیا، ھزاروں کو عقوبت خانوں میں پھینکا گیا۔ تحریک میں نام نہاد سوداگر پلانٹ کیے گٸے، کچھ تھک ہار کر فقط چاپلوسی اور حاکم کے پھینکے ٹکڑوں کی نذر ہوٸے، رہبروں نے دغا کی، تحریک بیچے، عوام بیچا، بلوچ بیچی، وطن بیچا اور پھر آخرِ کار بلوچ کا درد بھی بیچ ڈالا۔ مگر خوبصورت پہلو دیکھیے چند لمحے کی فاتحہ پرسی اور خاموشی کے بعد بلوچ پھر کھڑا ہوا، پھر لڑاٸی جاری رکھی، شالا یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے کہ بلوچ کی زندگی اسی میں ہے، بلوچ کی نجات و شناخت دونوں اسی میں ہیں۔

برمش تحریک، حیات بلوچ کے قتل پر پورے بلوچستان کا رد عمل، بانک شہید کےلیے اجتماعی ماتم و گریہ، شہید رامز و تمپ میں معصوم بچوں کے قتل پر بلوچ کی چیخ و پکار یہ سب بلوچ کے اس مزاحمتی کردار و ثقافت کا اظہار تھے۔ اور پھر اس مزاحمتی اظہار کو ایک مضبوط مجموعی عوامی تحریک کی شکل و صورت مکران میں حق دو تحریک نے عطا کی۔ اور ھزاروں بلوچوں نے موجودہ وحشت، جبر، دھوکہ دہی، وطن فروشی و بلوچ فروشی کے خلاف ایک مضبوط مزاحمتی اظہار کیا۔

یہاں پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مزاحمتی تحریک میں ایک عوامی قیادت شعوری مداخلت کرتی اور اسے ایک مخصوص شخص کے گرد گھومتے رہنے سے بچاتی مگر سوال بھی تو یہی ہے کہ بھلا عوامی قیادت ہے کہاں؟ جو وطن زادے تھے انہیں تو وطن بدر کیا گیا، ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنا کر گولیوں سے چھلنی کیا گیا، انہیں اٹھا کر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گٸیں یا پھر ان کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے عقوبت خانوں کی نذر کر دیا گیا۔ باقی بچنے والے سیاسی گِدھ تھے جو بلوچ کا درد بیچنے میں مہارت رکھتے تھے، جو حاکم کو خوش رکھنے میں پی ایچ ڈی کر چکے تھے، جو لاپتہ افراد کے مسٸلے کو ہر دو سال بعد اٹھا کر سودے بازی کر کے وزارتیں اور مراعات بٹورنے والے تھے تو بھلا وہ کیونکر اور کیسے اس عوامی مزاحمتی تحریک میں شعوری مداخلت کر پاتے۔ سو اس کا نقصان یہ ہوا کہ اس تحریک کی قیادت ایک جماعتی کے گرد گھومتی رہی، جی ہاں وہی جماعت جو لاکھوں بنگالیوں کے قتل میں ملوث رہی، وہ جماعت جس نے ھزاروں بنگالی خواتین کی عصمت دری کی ان کی عزتوں کو تاراج کیا، وہی جماعت جس کی دھشت گرد طلبہ وِنگ آٸے روز بلوچ و پشتون طلبہ کو اپنی وحشت و جبر و غنڈہ گردی کا نشانہ بناتی رہی ہے۔

پھر کہونگا کہ بلوچ کی خوش قسمتی ہے کہ بہت جلد آج اس جماعتی نے بھی اپنی حقیقت آشکار کر دی، بلوچ کی مجموعی شناخت، سماجی رنگ، قومی شعور، مزاحمتی ثقافت کے خلاف زہر اگل دیا اور ایک بار پھر گراٶنڈ پر موجود بلوچ کی لنگڑی و لولی ہی صحیح انٹلیجینشیا اور شعوری عوام کو موقع فراہم کر دیا کہ وہ آٸیں اور اپنی امانت ان سے چھین کر اس عوامی مزاحمتی تحریک کی قیادت سنبھالیں۔

مولانا ھدایت نے بلوچ مزاج و قومی مزاحمتی معیار کے خلاف زہر اگل کر نہ صرف اپنی اور اپنے جماعت کی بلوچ مخالف زہریلی پوزیشن واضح کی بلکہ اس نے یہ عمل کر کے ان کرداروں کو بھی ایک بار پھر سر اٹھانے اور سانس لینے کا موقع فراہم کر دیا جو کہ اس عظیم عوامی تحریک سے ڈر کر دب چکے تھے۔ اور عوامی خوف کی بنا پر کچھ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ مولانا عوامی تحریک کو جماعت اسلامی کے ھاتھوں بیچنے کی کوشش کر کے ایک طرف بلوچ عوامی تحریک کے ساتھ غداری کا مرتکب ہوٸے تو دوسری طرف بلوچ کے استحصال میں شریک پارلیمانی موقع پرست جماعتوں کو پھر سے مصنوعی سانسیں عطا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مولانا ایک دوھرے بلوچ دشمن جرم کا مرتکب ہوٸے۔ بلوچ جس طرح اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھلاتا ان کی ہمیشہ پوجا کرتا ہے ان کی تعظیم و تکریم کرتا ہے تو دوسری جانب وہی بلوچ دھوکے بازوں اور بلوچ کے مجموعی درد کو بڑھاتے رہنے والوں کو بھی کبھی نہیں بھولتا۔ ان کےلیے اپنے اجتماعی شعور میں نفرت پالتا رہتا ہے اس کی پرورش کر کے پھر اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ اور اب تحریک فروش مولانا بھی تا ابد بلوچ کے اسی شعوری نفرت کا سامنا کرتا رہے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.