سماج اور ریاست کی ذمہ داریاں

تحریر: صادقہ بلوچ

ریاست ایک ایسا طاقتور تنظیم ہے جو کہ ایک بہت بڑے علاقے کے لوگوں کو اپنے جبر، پرتشدد اداروں اور مسلط کیے گٸے قوانیں کے بطور کنٹرول کرتا ہے۔ عمومی طورپر تو ریاست کے معنی یہ لیے جاتے ہیں کہ وہ جن لوگوں کو اپنے ماتحت رکھتا ہے ان کے حقوق کا پاسبان و رکھوالا ہوتا ہے اور ہر ممکن حد تک ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرکے شب و روز ان کی زندگیوں میں آسانیاں اور آزادی فراہم کرنے کا کام کرتا رہتا ہے۔ لیکن جب ہم حقیقت کا پردہ اٹھا کر دیکھیں تو یہ تمام تر باتیں جھوٹ و دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ریاست کا ایسا کونسا ادارہ ہے جس پر لوگ اندھا دھند اعتماد کر سکیں، پولیس، ملٹری، عدلیہ، مقننہ ان سب میں سے ایسا کونسا ادارہ ہے جس سے عام انسان خوف نہ کھاتا ہو، ان سے بیزاری کا اظہار نہ کرتا ہو۔ انقلابی رہنما نے ریاست کے متعلق کیا ہی درست تجزیہ پیش کیا تھا کہ، ریاست ایک پرتشدد ادارہ ہے، یہ جس طبقے کے ھاتھ میں ہوتا ہے وہ دوسرے طبقات کو ریاستی طاقت کے ساتھ ہمیشہ کچلتا ہے۔

اور پھر سماج، لوگوں کا ایک گروہ جب ایک جگہ اکٹھے رہتے ہیں تو اسے سماج یعنی (سوسائٹی) کہتے ہیں۔ اس گروہ میں ہر انسان کا دوسرے کا ہمدرد ہونا لازمی ہے۔ سماج ایک مکمل نظام کے تحت چلتا ہے جو لوگ اس سماج میں رہتے ہیں وہ اس نظام کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور وہ اسی سماج کے بنائے ہوئے نظام کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ سماج میں رہنے والوں کی حفاظت، ان کےلیے بہتر سہولیات، بہترین تعلیمی نظام، خلاف ورزی کرنے والوں کو کنٹرول میں رکھنا اور سماج کو بہتر بنانے کی زمہ داری سماج کا نظام چلانے والوں کی ہاتھوں میں ہوتا ہے۔

جہاں سماج ہوگا ظاہر سی بات ہے وہاں مسائل بھی ہونگے لیکن ان مسائل کو حل کرنے کا زمہ سماجی نظام چلانے والوں کا ہوتا ہے۔ سماج میں جہاں مسائل پیدا ہونگے تو نظام چلانے والے لوگ ان مسائل کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ جب یہ مسائل وقت پر حل نہیں ہونگے تو پھر یہ مسائل خطرناک شکل اختیار کریں گی جس سے سماج پر گہرا اثر پڑے گا، یہاں تک کہ یہ مسائل ایک ایسے خطرناک ترین شکل اختیار کرسکتے ہیں کہ سماج کا مکمل نظام جڑ سے اکھاڑ پھینک سکتے ہیں۔

میں بلوچستان کی ایک بیٹی ہوں اور میں اپنے بلوچستان کی بات کروں گی۔ بلوچستان ریاست پاکستان کا وہ واحد محکوم صوبہ ہے جہاں دنیا جہاں کے معدنیات موجود ہیں۔ مجھے حاصل علم کے مطابق ریاست پاکستان کی آدھے سے ذیادہ معدنیات بلوچستان سے ہی پورے ہوتے ہیں لیکن افسوس وساٸل و معدنیات سے مالامال ہونے کے باوجود ہم غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر میں اپنے موضوع میں بلوچستان کے مسائل کے اوپر بات کروں تو شاید ایک مضمون ناکافی ہو۔

لیکن اس وقت بلوچ طلبہ و طالبات کو درپیش مساٸل شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ بلوچ طلبا اپنے حقوق حاصل کرنے کےلیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ ایک بہتر ریاست کی زمہ داری یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو ان کے حقوق فراہم کرے لیکن ہماری ریاست کی الگ ہی کہانی ہے کیونکہ یہاں جو انسان اپنے حقوق مانگنے کی بات کرتا ہے ریاست ان پر غداری کا ٹھپہ لگا کر ان کا جینا اجیرن کر دیتا ہے۔

ریاست کے حساس ادارے ان کو حقوق مانگنے پر اٹھا دیتے ہیں اور کچھ دنوں بعد ان کی لاش کسی ویرانی میں پڑی مل جاتی ہے یا پھر وہ ہمیشہ کےلیے زندان کی نظر رہتے ہیں۔ پھر اگر دیکھا جائے تو بلوچ سٹوڈنٹس اس جبر کا ذیادہ شکار ہوتے ہیں کیونکہ بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جس کے معدنیات سے پاکستان کی معیشت چلتی ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے لوگ بھوک افلاس سے مر رہے ہیں، سٹوڈنٹس کو وہاں تعلیم حاصل کرنے کےلیے اچھے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں نہیں جس میں وہ تعلیم حاصل کریں۔ جو تعلیمی ادارے ہیں ان کی حالات بھی ایسی ہے جو کسی ویرانی سے کم نہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کےلیے جو وسائل لازمی ہوتے ہیں وہ تعلیمی اداروں میں موجود نہیں۔۔۔۔

ان سب کے خلاف اگر بلوچ سٹوڈنٹس میدان میں پر امن احتجاج کرتے ہیں تو ان کو غدار کہا جاتا ہے۔ ان کو کالعدم تنظیموں سے جوڑا جاتا ہے کہ ان کا تعلق کالعدم تنظیموں سے ہے اور یہاں تک کہ ہاسٹل انتظامیہ کو بنا کسی نوٹس کے ان طلبہ کو یونیورسٹی ہاسٹل سے اٹھا لیا جاتا۔ آخر کب تک ایسا چلے گا؟

کیا ریاست میں اپنے حقوق مانگنا جرم ہے؟ ریاست جب بلوچ اسٹوڈنٹس کو ان کے حقوق نہیں دے گا تو وہ کیا کریں گے۔ ان کے پاس احتجاج کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا اور احتجاج کرنے پر ان کو کالعدم تحریکوں سے جوڑ دیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوٸی تعلق نہیں نہ ہی کوئی ٹھوس ثبوت یہ عدالتوں میں پیش کر سکتے ہیں۔ ریاست بلوچ سٹوڈنٹس کو اٹھانے کی بجائے حقوق دے تو پھر بلوچ سٹوڈنٹس بھی سکون سے رہ سکیں۔

بلوچ سٹوڈنٹس نے بہت سارے بے گناہ سٹوڈنٹس کے خون ریزی دیکھی ہے، اپنے دوستوں کو جیلوں میں زلیل ہوتے، ٹارچر سیلوں میں تشدد سہتے دیکھا ہے۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں بلوچستان کے لوگوں نے بنیادی حقوق کے مطالبے پر بھی اپنے پیاروں کو اس خون ریزی کھیل میں مرتے ہوئے دیکھا ہے، اغوا ہوتے اور تشدد سہتے دیکھا ہے۔

حال ہی میں یونیورسٹی آف بلوچستان میں ایک واقعہ پیش آیا کہ دو یونیورسٹی کے طالب علموں “سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ” کو اٹھالیا تھا۔ بلوچ سٹوڈنٹس کب تک ایسے ظلم برداشت کریں گے۔ اس ظلم کے خلاف وہ آواز اٹھاٸیں تو پھر غدار قرار دیے جاتے ہیں اور اگر خاموشی اختیار کر دیتے ہیں تو پھر اس سے جینے کا حق تک چھین لیا جاتا ہے۔ گزشتہ 75 سال سے لے کر ابھی تک بلوچستان میں مظالم کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ریاستی ادارے بنا کوئی نوٹس اور ثبوت کے کبھی مردوں کو گھروں سے اٹھاتے ہیں، کبھی عورتیں اور کبھی بچے جو کہ ایک نا قابل قبول عمل ہے۔ ہر روز بہت ایسے واقعات پیش آتے ہیں لیکن ابھی ریاست کی حساس ادارے بلوچ سٹوڈنٹس کو یونیورسٹی کیمپسز سے اٹھاتے ہیں۔ سب کے سامنے بلوچ سٹوڈنٹس کو اٹھا لیا جاتا اور پھر کئی کئی سالوں تک ان کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں یہاں تک کہ ان کو عدالتی کارروائیوں کےلیے عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔

ان بلوچ سٹوڈنٹس کے والدین در بدر کی ٹھوکریں کھا کر خودکشی تک آمادہ ہو جاتے ہیں اور بہت ساروں نے خودکشیاں بھی کی ہیں۔ ریاست کا کام ہے اپنے عوام کو حفاظت فراہم کرنا نا کہ ان کو بنا کوئی وجہ سے غائب کروانا۔ اور ریاست کو اپنی اس ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اس ظلم و جبر اور بربریت کو روکنا ہوگا۔ اسے بطور ریاست خونریزی سے اجتناب کرنا ہوگا۔ تب ہی وہ سکون پا سکے گا بلوچ سکون سے رہ سکیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.