مختلف پرتوں کا اتحاد و جدجہد: وقت کی ضرورت

تحریر: سراج بلوچ

اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس پر عمل پیرا ہوکر کوئی بھی طبقہ حصولِ مقصد تک پہنچنے میں سفلتا پا سکتا ہے، اب اگر اس کی مثال سرمایہ دارنہ نظام میں پرکھنے کی کوشش کریں تو یہاں اس نظام میں لوکل ليول سے لے کر نیشنل اور انٹر نیشنل لیول پر ان کے مفادات مشترکہ ہوتے ہیں اور ان مفادات کے حصول کے لیے ان میں ہم آہنگی یعنی اتحاد ہوتا ہے۔

اب دنیا کی پوری آبادی میں سے کہاں پانچ سے دس فیصد بمشکل لوگ پورے 90 فیصد آبادی پر مسلط ہو کر ان کے بوٹیوں کو نوچ رہے ہیں، یقیناً یہ ان کے آپسی مفادات ہیں جو ان کو آپس میں اتحاد کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، اب جب یہ پانچ سے دس فیصد لوگ جو آپسی یعنی اپنی ذاتی مفادات کے لیے پوری دنیا کے لیے جس میں چرند پرند ،حیوان ،درخت سے لے کر اشرف المخلوقات کے لیے انتا ہی نقصاندہ ہیں، ان میں اتحاد ہو سکتا ہے پھر ہم 90 فیصد یعنی محقوم طبقہ میں کیوں نہیں ہو سکتا ! شاید اس بحث میں پڑ کر میں اپنے اصل ہدف سے بھٹک ہو جاٶں لیکن پھر بھی آپ قارئین کو اسی ہی بحث کے زریعے اپنے اصل مضمون کی طرف راغب کروں گا۔

اگر ہم اس 90 فیصد لوگوں کے اتحاد نہ ہونے کا کارن ذرا باریک بینی سے جاننے کی کوشش کریں تو ان میں اتنا بڑا خلا جو سامنے آتا ہے اس کی سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے بنیادی رکاوٹيں مذہب، نسل، قوم، ملک، بارڈر، زبان و ثقافت وغیرہ وغیرہ ایسی بلاکس ہیں جو ان کے درمیان اتحاد، ربط کو منقطع کر کے رکھتے ہیں۔
اور پھر اگر ان بلاکس کا جڑ دیکھیں تو وہی واہیات، انسان دشمن سرمایہ داری۔

میرا مطلب ان میں جو بیشتر رکاوٹيں ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ہوٸی ہیں، اور خود ان بد مغزوں کا کوئی مذہب، قوم، ملک، بارڈر نہیں یہ فقط پوری انسانیت کو اپنے چند بے ہودہ مفادات کے لیے تقسيم در تقسيم کا شکار بناتے جارہے ہیں۔ اور پوری انسانیت کو نچوڑ نچوڑ کر بھوک، افلاس، بیماریوں اور ذہنی انتشار کے حوالے کرکے مرنے کےلیے چھوڑ دیتے ہیں۔

اب ذرا اس کو مزيد آسان کر کے سمجھیں تو حال ہی میں سری لنكا کا معاملہ ہمارے سامنے ایک ٹھوس مثال ہے، کیا سری لنكن عوام سری لنكا کا دیوالیہ ہونے سے پہلے ٹھیک اسی طرح متحرک تھے۔۔۔؟ کیا سری لنکا کسی باہر کے قبضہ گیر کے ہاتھوں میں ہے۔۔۔؟ يقیناً جواب نفی میں آتا ہے، اگر ہم سری لنكن عوام کا غور سے مشاہدہ کريں تو حکمران اشرافيہ نے انہیں اپنے چند ذاتی مفادات کی خاطر اندهرے میں کر رکھا تھا، ٹھیک روایتی حکمرانوں کی طرح تقسیم اور حکمرانی والی پالیسی یعنی وہاں کے حکمران اشرافیہ نے عوام کو مذہب ،قوم اور طبقاتی طرز کے زریعے تقسیم کر رکھا تھا جیسے کہ بدھ مذہب اور مسلم و تمل مذہب کے فسادات، تمل قوم کے باغیوں کا سنہالاٸی قوم کے تضادات ان سب میں ان کو باندھ کر خود مزے سے حکمرانی کر رہا تھا۔ ایسی سینکڑوں مثالیں ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے فرانسیسی استعمار کا الجزائر میں عورت جیسے حساس مسٸلے ، مختلف پروپیگنڈے اور زبان کی بنیاد پر نفسياتی کھلواڑ کر کے اپنے استعماری پنجے مضبوط کرنا ، لیکن وہیں پر سری لنكن اور الجزائر قوم کے میچور سیاسی و انقلابی قیادت نے بڑے احسن طریقے سے ان کا ہر کھیلا گیا چال ناکام کیا نا صرف ناکام بلکہ یہی چال الجزائر نے واپس فرانسیسی استعمار پر چلا کر اس میں تحریک کی پوری کامیابی سميٹ لی۔

ازالمختصر اگر سیاست سائنس ہے، تو سائنس کے فارمولے ہوتے ہیں، فارمولا ایک پیٹرن ہوتا ہے اور یہ کسی خاص ہی جگہ پر لگائی جاتی ہے، اب وہ جگہ و موقع کونسا ہوتا ہے یہ انقلابی قیادت اپنی ذہنی معیار سے معلوم کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح کسی بھی انقلابی تحریک میں سفلتا پا نے کے لیے بہت سے پلرز ہوتے ہیں جیسے انقلابی جماعت، مختلف سٹرکچرز، سیاسی و انقلابی قیادت، اور ٹھیک اسی طرح سماج کے ان حلقوں میں اتحاد کا ہونا بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔

بلوچ وطن پر در آمدی استعمار کی ایک طويل تاریخ ہے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے ، بہرحال بہت سی چیزیں ہمارے ماضی سے جڑی ہیں۔ اگر ہم اس ستر سالہ جدو جہد کا جائزہ لیں اس کا باريک بينی سے مشاہدہ کریں تو مختلف ادوار میں ہماری ناکامیوں کی وجہ سامنے نظر آتا ہے۔ میں اپنے اس تحریر کو بغیر لمبا کیے اس کو مختصراً آپ قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں جس سے اس میں بہت ساری خالی جگہیں پیدا ہو سکتے ہیں اس کا ادراک مجھے بھی ہے، اور ان کو فل کرنا فل وقت میں مناسب نہیں سمجھتا۔

1948 کے دور میں کی ہوئی سیاست و اُس دور کی قیادت میں سے کچھ کا اس وقت مسلم لیگ میں شمولیت اسی طرح ستر کی دہائی میں نيب طرز کی سیاست و 1973 کے آئین پر دستخط کرنے کے پیچھے لگ جانا اور اس کے ساتھ پھر لمبے عرصے کے لیے سیاسی میدان کا خالی ہونا، ایک ایسے وقت پر گراؤنڈ و ایک تیار انقلابی فصل کو چھوڑ کر جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ شاید مابعدالطبیعیات بہرحال یہ انقلابی ورثے میں نہیں آتا، وقت تو اس کے بعد بھی تھا کہ اس فصل کو کاشت کیا جائے لیکن اک کاشتکار تھا کہ ازخود سست پڑ گیا ۔

اب 2000 سے لے کر اب تک قومی تحریک کے گراف کا اگر ہم موازنہ کریں تو یہ ہمیں عروج کی طرف گامزن نظر آتا ہے، لیکن وہیں پر ہم دیکھیں تو ریاستی بیانیہ مضبوط ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ ریاستی مشینری نے اپنی نرسریاں قائم کر رکھی ہیں ،اور ہمارے سیاسی و سماجی اسٹرکچرز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سیاسی و سماج اسٹرکچرز کی اک جھلک آپ اس میں دیکھیں کہ کل اگر کوٸی اداروں کے ساتھ رابطہ کرتا تو وہ چھپ کر کرتا تھا یہ ایک معیار تھا وہ جانتا تھا کہ میں اظہار کروں لوگ مجھے ناپسند کریں گے نفرت کریں گے اور آج اسی سماج میں ہر گلی میں آپ کو ایک صرف گاڑی لے کر خود کو فخریہ پیش کرنے والا مِل جاٸے گا کہ میرا تعلق فلاں ادارے سے ہے۔ قباٸلی معتبرین سے لے کر عام نوجوان تک اس مرض میں مبتلا ہیں اور ہمارے پاس انہیں بچاٸے رکھنے کےلیے کوٸی پالیسی تک نہیں۔ ہمارے اسٹرکچرز اس قدر تباہ ہو چکے ہیں۔

بہرحال موجودہ صورتحال اور اس کے بعد یہاں سے مزيد کامیابی ہم کیسے سميٹ لیتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا اور اس کی کاميابی کے لیے پھر ہمیں پیچھے ماضی کی طرف جھانكنا ہوگا کیوں کہ جیسے میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ انقلاب نے بہت بار ہمارے دروازوں پر دستک دی ہے لیکن اک ہم تھے کے وہ دروازہ نہ ڈھونڈ سکے جس سے نکل کر انقلاب کا ہاتھ تھام سکیں، اس کی مثال ٹھیک اس پرندے کی طرح ہے جو کسی بند کمرے میں باہر نکلنے کےلیے پھڑ پھڑاتا ہے حشاش بشاش ہو کر اپنی جسم کی کوآرڈینیشن تقریباً کھو کر بار بار کھڑکی میں پیوست شیشے سے ٹکرا ٹکرا کر گھائل ہوکر اپنی پوری توانائی ضائع کر بیٹھتا ہے، نتیجتاً وہ آخری سانس تک اسی کمرے میں بند ہی رہتا ہے ، اگر ہم بلوچ قومی تحریک کا باريک بینی سے مشاہدہ کریں تو ہم بہت بار فتح کے قریب آ کر بھی ناکام رہے مگر کامیاب نہیں ہو سکے تو وہ وہی بند کمروں میں گول گول چکر کاٹنے والی بات ہے کے ہم نے وہ راستہ ہی تلاش نہیں کیا جو انقلاب تک لے جانے والی پہلی سیڑھی تھی۔ اس کے بہت سے وجوہات ہیں، جیسے انقلابی جماعت کے طرز کی سیاست، دیر تک گراٶنڈ پر ٹِکنے کی صلاحیت، ہر طبقہ اور پرت کو شامل کرنے کےلیے واضح پالیسی اور حکمت عملی، اتحاد و اتفاق ، واضح حکمت عملی وغیرہ وغیرہ ۔

اگر ہم قومی تحریک کے بیشتر لمحات کو پرکھیں تو یہاں ہمیں کوئی واضح لائن منزل کی طرف جاتے نہیں دیکھتا بس وہی محض روایتی طرز کا سیاست جو گول مٹول گھوم کر اپنی سماجی کوآرڈینیشن کھو کر آہستہ آہستہ توانائی سے محروم رہتا ہے۔
بقول ہمارے ایک دانشور : بلوچ قوم کا شمار ان اقوام میں ہوتا ہے جنہوں نے وقت و حالات کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کی جدوجہد نہیں کی۔

اب اگر ہم قومی تحریک کی ان کچھ سالوں کا مشاہدہ کریں ، جہاں سے گراؤنڈ پر واپس ہم اپنے پنجے گاڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں قومی تحریک کو جدت بخش کر اسے پِیک لیول تک پہنچا دیتے ہیں، لیکن اب کیا ؟
یہاں کونسی حکمت عملیاں اپنا کر ہم اس کو سیدھا ڈائریکشن دینے میں کامیاب ہوں گے یہ ایک چیلنج ہے اور اس چیلنج کو پورا کرنے کے لیے سب سے پہلے بلوچ کے تمام سیاسی طبقات میں اتحاد و اتفاق کا ہونا ایک ناگزیر عمل ہوگا، نہیں تو اگر ہم وہی موروثی و روایتی طرز کا سیاست اپنا کر اپنے اپنے ہیروز کے اردگرد گھوم کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہیں گے۔ اس رَدِ انقلابی عمل سے بچنے اور ماسز کو تھکاٸے بغیر مسلسل انگیج رکھنے کےلیے ان کے لیے پالیسیز مرتب کرنی ہونگی، انہیں فقط ہانکتے رہنے کی بجاٸے ان کے بنیادی و ضروری مساٸل پر انہیں شعور دے کر اکٹھا کرنا ہوگا۔ ماسز کو بیگانگی سے نکال کر انہیں ان کے مشترکہ مساٸل پر ابھارنا اور متحرک رکھنا ہوگا۔ اور اس ابھار کو اسٹریٹ پاور میں تبدیل کرکے لمبی لڑاٸی لڑنے کی تربیت دینی ہوگی اور یہ تربیت مرحلہ وار رکھنا ہوگا۔ تاکہ وہ تھکن اور مایوسی کا شکار نہ ہوں، بلکہ مسلسل حاصلات کے گرد آگے بڑھیں اور اپنی طاقت و اجتماعیت پر خود پختہ یقین حاصل کریں۔ پختہ یقین دلانے کےلیے ان کا مسلسل لمحہ بہ لمحہ پریکٹس میں رہنا، فیصلہ سازی کرتے رہنا تسلسل کے ساتھ تجربات سے گزرتے رہنا لازمی فیکٹر ہے۔

اب اس مقام پر اپنا ضد، انا، بغض اپنے گروہی مسائل و اپنے سیاسی مخالف کو کاؤنٹر کرنے کا رواج ترک کر کے خالصتاً انقلابی مغزوں کو یکجا کرنا ہوگا، اگر ہم اپنے ان ردِ انقلابی رویوں کو تبدیل نہیں کریں گے تو یہ وہی اپنے اصل منزل سے بھٹک کر محض گول گول چکر کاٹتے رہیں گے جو اوپر بیان کیا ہوا ہے۔

اس وقت اتحاد ناگزیر ہے کیونکہ اب ہمیں متحرک ہوکر ذریعہ نجات کو ڈھونڈنا ہوگا، اپنے اس بکھری ہوئی توانائی کو يكجا کر کے سماجی انقلاب کے لیے وقف کرنا ہوگا، اس کے بنیادی اسٹرکچرز تشکیل دینے ہوں گے۔ لوگوں کو اس دھوکہ بازی و دوزخی سکون سے نکالنا ہوگا، انہیں یہ یقین دلانا ہوگا کہ وہ کسی غیر سے رشتہ استوار کرنے کی بجاٸے اپنوں میں رہ کر اور رشتے استوار کرکے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ماسز کو یقین دلانا ہوگا کہ ان کے مشترکہ مساٸل و مفادا کا حل بھی انہی متحدہ پرتوں کی نماٸندہ جماعت یا فرنٹ کے پاس ہے۔ وہ شہر، گلی، دیہات مکان و دوکان میں ان کا اور ان کے مفادات کا والی و محافظ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.