قوم سے مراد کیا ہے؟ پہلے باب کا تنقیدی جاٸزہ

تحریر: سجاد بلوچ

اقوام کے ارتقاء و عروج میں تاریخ اور تاریخی طاقتوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے، مختلف انسانی گروہوں اور مختلف قبائلی ڈھانچوں کا تاریخی حالات کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ ملنے اور ایک مضبوط و پائیدار رشتہ قائم کرنے سے ایک مکمل قوم تعمیر ہو جاتی ہے، قوم کسی ایک ہی انسانی گروہ یا کسی ایک ہی قبیلے کے افراد پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ قومی سانچے میں مختلف قسم کے انسانی جماعتیں اور مختلف انسانی قبائل کے افراد شامل ہوتے ہیں، یہاں انگریز، فرانسیسی اور دیگر اقوام کی مثالیں دی گئی ہیں، اور کہا گیا ہے کہ یہ سوچنا بلکل غلط ہے کہ انگریز اور دیگر قومیتیں کسی ایک ہی قبیلے یا کسی ایک ہی انسانی نسل کے افراد سے مل کر بنی ہوئی ہیں، یا فقط یہ ایک ہی قبیلے کے اولاد ہیں، بلکہ انگریز، فرانسیسی اور دیگر قومیتیں تاریخی طور پر مختلف قسم کے انسانی نسلوں، انسانی گروہوں کے ایک ساتھ ملنے کی باعث وجود میں آنے والی اقوام ہیں۔

اسی طرح فرانسیسی قوم کو لے لیجیے یہ قوم بھی مختلف انسانی گروہوں کے ایک ساتھ ملنے سے ہی وجود میں آئی ہے، مزید قومی ہیئت کو بہتر انداز میں سمجھنے کےلیے میں یہاں بلوچ قوم کی مثال دینا چاہونگا، بلوچ قوم تاریخی حالات و تاریخی عوامل کی صورتوں میں وجود میں آنے والی ایک قوم ہے، بلوچ قوم ایک ہی انسانی گروہ یا فقط ایک ہی انسانی قبیلے کے افراد پر مشتمل نہیں بلکہ بلوچ قوم مختلف قبائل یعنی رند، لاشار، مینگل، مری، مسگی وغیرہ کا مجموعہ ہے، یہ انسانی قبائل تاریخی حالات و تاریخی عوامل کی صورتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ملنے اور ایک مضبوط و پائیدار رشتہ قائم کرنے کی وجہ سے مکمل طور پر ایک مہذب قوم کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔

قوموں کی تعمیر و ترتیب میں دراصل تاریخی عوامل کا ہی ہاتھ ہوتا ہے، یہی تاریخی عوامل اور تاریخی طاقتیں مختلف انسانی گروہوں اور انسانی قبائلی ڈھانچوں کو ایک ساتھ ملا کر ایک مکمل اور منظم قوم کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔

جیسے کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قوموں کو تعمیر کرنے میں تاریخ اور تاریخی عوامل کا ہی ہاتھ ہے، مگر یہاں تاریخی طور پر بننے والے سکندر اعظم کی سلطنتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کامریڈ اسٹالن لکھتے ہیں کہ ان سلطنتوں کے تمام افراد کو قطعاً ہم ایک قوم کا لقب نہیں دے سکتے، بھلے یہ سلطنتیں تاریخی طاقتوں کی ہی پیداوار ہیں اور یہ تاریخی طور پر ہی تعمیر ہو چکے تھے، مگر ان سلطنتوں کے تمام افراد کو قطعی طور پر ہم ایک قوم نہیں کہہ سکتے، کیونکہ یہ سلطنتیں حادثاتی طور پر وجود میں آئی تھیں، انہیں قوم کا لقب دینا غلط فہمی سے کم نہیں۔

ان سلطنتوں میں افراد کے درمیان عارضی طور پر ایک ڈھیلا ڈھالا سطحی اتحاد قائم ضرور ہوا تھا، مگر ان گروہوں کے درمیان اندرونی طور پر کوئی ایسا مضبوط اور اشتراکی بنیادوں پر اتحاد قائم نہیں تھا جو قومی ہیئت کو برقرار رکھ سکے، اور یہی وہ لازمی شرط ہے ایک مخصوص قوم بننے کے لیے کہ انسانی جماعت کے تمام افراد کے درمیان “ایک مضبوط و اشتراکی پائیدار رشتہ قائم ہو”، تب جاکر اس انسانی جماعت کو ہم ایک قوم کا لقب دے سکتے ہیں، ورنہ اس سطحی اور غیر اشتراکی اتحاد کے ٹوٹنے اور بھکر جانے کا ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔

مگر یہ معاملہ یہاں رکا نہیں ہے، ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ مختلف انسانی گروہوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے ایک مخصوص قوم تعمیر ہوجاتی ہے، اور اس انسانی جماعت کے تمام افراد کے درمیان ایک مضبوط و اشتراکی بنیادوں پر ایک اتحاد قائم ہونا بے حد ضروری ہے، ورنہ یہ انسانی گروہ ٹوٹ کے بھکر جائے گا، بلکل اسی طرح مختلف انسانی گروہوں کے درمیان مضبوط و اشتراکی اتحاد کے ساتھ ساتھ لسانی اشتراک کا ہونا بھی ضروری ہے.

یہاں روس اور آسٹریا کی مثال دی گئی ہے کہ ان دونوں ملکوں میں ایک مضبوط سیاسی اتحاد قائم ہے، یہ دونوں ممالک “سیاسی گروہ ہیں لیکن قومی گروہ نہیں” کیونکہ قومیت کو برقرار رکھنے کے لیے لسانی اشتراک کو لازمی شے قرار دیا گیا ہے، روس میں اس وقت مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں مگر ایک مخصوص قوم کے لیے ایک ہی مخصوص زبان کا ہونا بے حد ضروری ہے اسی وجہ روس ایک قوم نہیں بلکہ مختلف انسانی گروہوں کے درمیان ایک سیاسی اتحاد ہے اور سیاسی گروہوں کے درمیان لسانی اشتراک کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

ایک اور جگہ پر چیکوسلواکیہ کی مثال دی گئی ہے کہ، چیکوسلواکیہ کی قومیت اس وقت وجود میں آئی جب اس ملک کے تمام افراد کے درمیان ایک مشترکہ زیان رائج ہوئی،
بہرحال قومیت کو برقرار رکھنے کے لیے لسانی اشتراک کا ہونا بھی ضروری ہے۔

“مگر میں ذاتی طور پر کامریڈ اسٹالن کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ “کسی قوم کےلیے ایک مخصوص زبان کا ہونا لازمی ہے” کیونکہ آج دنیا میں ایسے بہت سارے اقوام ہیں جن میں ایک یا ایک سے زیادہ زبانیں بھی بولی جاتی ہیں، زیادہ دور نہیں جاتے اس کی واضح مثال بلوچ قوم ہے، بلوچ قوم میں بلوچی، براہوئی، سرائیکی وغیرہ مختلف قسم کی زبانیں بولی جاتی ہے مگر پھر بھی بلوچ قومی ہیئت برقرار ہے”.

قومیت کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زبان بولنے والے تمام افراد ایک ہی قوم کے متعلق ہوں، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ دنیا کی تمام قومیں مختلف اور علیحدہ علیحدہ زبانیں استعمال میں لائیں، مگر یہاں ایک سوال ہے وہ یہ کہ انگریز اور امریکی ایک ہی زبان بولتے ہیں مگر پھر بھی وہ ایک قوم کیوں نہیں ہیں؟ ناروے اور ڈنمارک کے لوگ ایک ہی زبان بولتے ہیں مگر کیوں دونوں علیحدہ علیحدہ قومیتوں کے حامل ہیں؟

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انگریز اور امریکی دونوں مختلف زمینی خطوں سے جڑے ہوئے ہیں، قومیت کے وجود کو برقرار رکھنے کیلیے ضروری ہے کہ لوگ پشتہا پشت سے ایک دوسرے کے ساتھ یکجاء ہوکر رہیں، پشتہا پشت ایک ساتھ رہنے سے قومی نفسیاتی ساخت اور قومی کردار میں ہم آہنگی پیدا ہوجا تی جس سے قوموں کے داخلی روحانی انداز میں یکسانیت برقرار رہتی ہے، مگر تاریخی طور پر دیکھا جائے موجودہ امریکی اور انگریزوں کے آباء و اجداد پہلے ایک ہی زمینی خطے میں آباد تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ انگریزوں کا ایک حصہ انگلستان سے کوچ کرگئے اور موجودہ امریکہ کی جانب بڑھنے لگے، اور پر یہاں تاریخی عوامل اور تاریخی طاقتوں کے باعث ایک نئی قوم نے جنم لینا شروع کر دیا، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ قوم کو وجود میں لانے اور اس کی ہیئت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ہی زمینی خطے کا ہونا بھی ضروری ہے۔

ایک ہی زمینی خطے میں رہنے والے ایک ہی قوم کے افراد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے درمیان بہتر معاشی تعلقات قائم ہوں، قومیت کو مضبوط و پائیدار بنانے کے لیے خطے میں بہتر معاشی نظام و معاشی طاقتوں کا موجود ہونا بھی ضروری ہے، جو قوم کے تمام تر بھکرے ہوئے پرتوں کو یکجاء کرنے اور انہیں ایک مضبوط اور پائیدار قومی اتحاد میں بدل دینے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں، چونکہ امریکیوں اور انگریزوں کے درمیان ایسی کوئی معاشی تعلقات بھی نہیں پائی جاتیں جس کی وجہ وہ ایک قوم بن جائیں، معاشی تعلقات کے حوالے سے یہاں ایک اور مثال دی گئی ہے کہ “جارجیا میں بہتر معاشی تعلقات و بہتر معاشی ڈھانچے تعمیر ہونے سے پہلے جارجیا میں رہنے والے ایک ہی قوم کے افراد جو کہ ایک ہی زمینی خطے میں آباد تھے اور وہ مشترکہ زبان بھی استعمال کرتے تھے، مگر بہترین معاشی ڈھانچے کی عدم موجودگی کے باعث وہ جنگ و جدل اور قتل و غارتگری کا شکار تھے۔

لیکن انیسویں صدی کی نصف میں جارجیا میں جاگیر دارانہ معاشی ڈھانچے کی تباہ کاری اور اس کی جگہ ایک نیا سرمایہ دارانہ معاشی ڈھانچے کی قیام کے باعث اس قوم کے اندرونی حالات میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں، اور جارجیا کے قومی ریاستیں پہلے ایک دوسرے سے بدظن تھے مگر اب ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں، قوم کے افراد کے درمیان بہتر رابطے کا انوکھا طریقہ بھی سامنے آیا، تو پھر اس طرح انیسویں صدی کے آخری وصف میں جارجیا والے ایک مضبوط و پائیدار قوم بن کر خطے میں ابھر کر سامنے آئے، اسی وجہ سے بہتر معاشی تعلقات و بہتر معاشی ڈھانچے قومی ہیئت کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہے۔

قومیت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ تمام عناصر کا بیک وقت ایک قوم میں موجود ہونا لازمی ہے، مگر اب ہم آخری اور بہت ہی اہم عنصر کا ذکر کرنے جارہے ہیں جو باقی دیگر عناصر سے کسی طرح بھی کم نہیں، وہ یہ ہے کہ مختلف قومیتوں سے تعلّق رکھنے والے افراد کی مختلف قومی نفسیاتی ساخت ہوتی ہے جو انہیں باقی دیگر قومیتوں سے علیحدہ کرتی ہے، قومی نفسیاتی ساخت کو ہم قومی کردار یا قومی خصوصیات بھی کہ سکتے ہیں، یا پھر یوں کہیں کہ ایک ہی قوم کے داخلی روحانی انداز۔

قومی نفسیاتی ساخت یا قومی کردار کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کو بیان کیا جاسکے یا پھر اس کی کوئی ایسی شکل و صورت بھی نہیں کہ کسی قوم میں اس کی نشان دہی کی جاسکے، ہاں البتہ قومی تہذیبوں سے ہی قومی نفسیاتی ساخت یا قومی کردار کا پتہ لگایا جا سکتا ہے، قومی تہذیبوں کے مطالعے کے ذریعے سے قومی نفسیاتی ساخت کا اندازہ لگانا ممکن ہے، مختصراً یہ ہے کہ قوم کے تمام افراد کے درمیان مشترکہ قومی نفسیاتی ساخت کا ہونا لازمی ہے، جس کا اظہار قومی تہذیبوں میں ہوتا ہے۔

یہ تمام تر بالا خصوصیات ایک قوم کو مضبوط و پائیدار بنانے کیلئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، کسی ایک مخصوص قوم میں ان تمام تر عناصر میں سے کسی ایک عنصر کی غیر موجودگی بھی قومی ہیئت بگاڑ سکتی ہے، قومیت کو مضبوط و پائیدار بنانے کے لیے ان تمام عناصر کا بیک وقت موجود ہونا لازمی ہے۔

آخر میں کامریڈ اسٹالن اس چیپٹر میں قومیت یا قومی ہیئت کو چند لفظوں میں مختصراً یوں بیان کرتے ہیں:-
“قوم انسان کے ایک ایسے پائیدار و مضبوط گروہ کا نام ہے جس کے ارتقاء و عروج میں تاریخ نے ہاتھ بٹایا ہو اور جس کے اندر اشتراکِ زبان، اشتراکِ ارض، اور اشتراکِ معاش پایا جاتا ہو اور ساتھ ہی اس کی نفسیاتی ساخت بھی ایک ہی سی ہو__وہ نفسیاتی ساخت جس کا اظہار تہذیبی اتحاد و اشتراک کی صورت میں ہوتا ہے”.

Leave a Reply

Your email address will not be published.