بی ایس او حب زو کی جانب سے ”بی ایس او اور بلوچ سیاست“ کے عنوان پر اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔

رپورٹ: بی ایس او حب زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن حب زون کی جانب سے 22 جولائی 2022 بروزِ جمعہ “بی ایس او اور بلوچ سیاست” پے اسٹڈی سرکل رکھا گیا، اسٹڈی سرکل کی کاروائی حب زون کے سنگت کامریڈ ساجد بلوچ نے چلائی اور لیڈ آف مرکزی رہنما سازین بلوچ نے دی۔

اسٹڈی سرکل کا آغاز کرتے ہوئے دوستوں نے “بی ایس او” سے پہلے جو تنظیمیں بلوچ عوام کے گرد سیاست کر رہی تھیں ان کے حوالے سے بات رکھتے ہوئے کہا کہ بی ایس او سے پہلے تنظیمیں خواہ وہ “ورنا وانندہ گل” ہو ، بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن ہو یا پھر مکران اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہو سب علاقائی بنیاد پر سیاست کر رہے تھے۔ جو پورے بلوچستان تک نہیں پھیل پائے تھے۔ تو 1960 کی دہائی میں جہاں پوری دنیا کے اندر انقلابی سرکشیاں سر اٹھا چکی تھیں جن کی قیادت نوجوان نسل ہی کر رہی تھی اسی طرح بلوچ نوجوانوں نے ان انقلابی نظریات سے توانائی حاصل کی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی صورت میں 60 کی دہاٸی میں قومی طلبہ تحریک کا آغاز کیا جسے عوام میں بہت پزیرائی ملی ، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بی ایس او جو ایک طرف طلباء میں کیڈر سازی کا کام کرنے میں مصروف تو دوسری طرف ماس پارٹی جن کی بلوچستان میں قلت تھی ان کے خلا کو پُر کرنے کا بیڑا بھی بی ایس او نے اپنے سر لے لیا۔

ماس پارٹی کا خلا بی ایس او نے پُر کیا اور ہر جابر کے سامنے ڈٹ کے کھڑے رہنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ خواہ وہ 70 کی دہائی میں بھٹو آمریت ہو یا یحییٰ خان کا سیاہ مارشل لاء ہو یا پھر جنرل ضیاء سیاہ ملٹری راج۔ لیکن جو بنیادی کام تھا بی ایس او کا اس کو کرنے میں مسلسل رکاوٹیں آتی رہیں۔ کبھی بی ایس او کو فقط مفادات کےلیے تقسیم کیا گیا تو کبھی ریاست کی بے پایاں جبر اور بربریت نے اس قومی انقلابی تنظیم کو کچل کر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

مگر محکوم بلوچ کے غلام بچے اس بات سے ہمیشہ واقف رہے ہیں کہ انقلابی تنظیم کے بغیر فتح حاصل کرنا نا ممکن کے، اسی لیے ریاست اور مقامی اشرافیہ نے جتنی بار بی ایس او کو توڑا، اسے اپنے تابع بنانے کی کوشش کی، جبر و بربریت کے ذریعے اسے کچلا، بی ایس او کو بلوچ فرزندوں نے پھر ابھارا، منظم کیا، زندگی و جوانیاں جھونک دیں اور اس سرخ پرچم کو جلا بخشی۔

آج بعد از بی ایس او بلوچ سیاست کا مکمل ڈھنگ بدلا اور رنگ بدلا، بی ایس او نے بلوچ سیاست کے اندر ساٸنسی و انقلابی اور معیاری اقدار و روایتیں متعارف کرواٸیں، وہ انقلابی کلچر پروان چڑھایا جو کسی بھی محکوم کے نجات کےلیے لازمی و ضروری عنصر و ہتھیار ہوتے ہیں۔

اکیسویں صدی کے اولین دہاٸی کے اواخر اور دوسری دھاٸی کے نصف تک ریاستی جبر، مقامی اشرافیہ کی موقع پرستی و مفاد پرستی نے بی ایس او کو ایک بار پھر نیست نابود کرنے، اسے بانٹ کر پاکٹ آرگناٸزیشن بنانے اور فقط جھنڈا برداری و ڈنڈہ ماری پر لگانے کی بھرپور کوشش کی، انقلابی نظریات کو مسخ کرنے اور بی ایس او سے چھیننے کی زور آزماٸی کی مگر بلوچ وطن ہے کبھی بانجھ نہیں ہوتا، مٹی کے پھر کچھ سر پھرے فرزند میدان میں آٸے اور وطن کے انقلابی تنظیم اور اس کے لال انقلابی پرچم کو تھاما اور اس عظیم درسگاہ کو بچانے میں کامیاب ہوٸے۔

آج بی ایس او پر تاریخ کی بھاری ترین ذمہ داری عاٸد ہوتی ہے اور اس ذمہ داری کو بلوچ فرزند ادا کرنے کےلیے راضی و تیار ہیں۔ بی ایس او کا محکم یقین ہے کہ وطن پر چھاٸی کالی گھٹاٶں، ظالم کی ظلم و جبر، حاکم کی وحشت و بربریت اور مقامی اشرافیہ کی موقع پرستی، بزدلی و مفاد پرستی کو شکست دے کر ایک نیا بامسار لایا جا سکتا ہے اور ہماری جدوجہد اسی روشن سویر کے لیے جہاں استحصال کے کسی بھی شکل کی کوٸی گنجاٸش نہ ہو۔

اتحاد جدوجہد آخری فتح تک

Leave a Reply

Your email address will not be published.