روٹھا وِشنو، بدحال بلوچ اور عوام

تحریر: فرید مینگل

بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جس سے امن کا دیوتا ”وشنو“ پچھلے دو سو سال سے روٹھا ہوا ہے، بلوچ بے بخت نے وطن کھویا، امن کھویا، چمن کھویا محراب خان کھویا مگر ”وشنو“ دیوتا ہے کہ ماننے کو تیار نہیں، راضی ہونے کو تیار نہیں۔ انگریز سرکار نے عزیز کو قید کیا، سیکڑوں سپوتوں کو شہید کیا، رہبروں کو جلا وطن کیا، کاہان و دودکی کو روندا، وطن بانٹا، امن بھگایا، بلوچ کو غلام بنایا، نورا مینگل کو لاپتہ کیا جس کے قبر تک کا بلوچ کو معلوم نہیں، لیکن بھگوان وِشنو کو ترس نہیں آیا۔

انگریز گیا اس کا لے پالک آیا، مِیری کا شاہی مسجد شہید ہوا، خان پابند سلاسل ہوا، وعدہ خلافی ہوٸی، آغا سے دھوکہ ہوا، بابو نوروز کو قراٰن کا واسطہ دیا گیا، بٹے خان و ساتھیوں کو پھانسی دی گٸی، عطااللہ، خیر بخش، بزنجو گرفتار ہوٸے، جھلاوان میں فوج کشی کی گٸی، اسد و احمد شاہ لاپتہ ہوٸے، کوہلو و کاہان ایرانی بُراقوں کا نشانہ بنے، خواتین کی بے حرمتی ہوٸی ضیا باطل آیا، حمید نے پھانسی کا پھندا چوما، فدا شہید ہوا، بلوچ قتل ہوا مگر بلوچ کا قسمت نہیں بدلا، بلوچ پر قدرت کو ترس نہیں آیا۔

اکبر شہید ہوا، بلوچ بالاچ سے محروم ہوا، غلام محمد ظالم کے ہتھے چڑھا، لالا منیر قتل ہوا، ذاکر جان اغوا ہوا، سنگت ثنا بے دردی سے مسخ ہوا، زرداری نے معافی مانگا، نواز شریف توبہ تاٸب ہوا، نیشنل پارٹی حاکم بنا، کتابیں گرفتار ہوٸیں، اغوا گیری میں شدت آیا، توتک نے مسخ شُدہ لاشیں اگلیں، عمران خان گِڑ گِڑایا، بی این پی شش نقاتی ہوا، وزارتیں لیں، جام بھگایا، قدوس لایا، لمبی لمبی تقریریں کیں، ٹھیکے لیے، پی ایس ڈی پی میں کام ڈلواٸے، ویگو گاڑیوں اور لینڈ کروزروں اضافہ ہوا مگر بلوچ بدحال ہی رہا، وشنو دیوتا روٹھا رہا۔

بلوچ کی حالت زار یہ ہے کہ میدان میں بلوچ کا والی وارث کوٸی نہیں، ہر جانب سے چلاٸی گٸی تیر سیدھا سیدھا بلوچ کے سینے میں پیوست ہو جاتا ہے اور وہ اس درد سے کراہتا رہتا ہے کہ دشمن ایک اور توپ بلوچ کے وطن و دیوہیکل جسم پر داغ دیتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اس لیے کہ بلوچ محکوم ہے، وطن مغلوب ہے، اپنے بِک چکے ہیں اور غیر مسلط ہیں۔

آج صورتحال یہ ہے کہ ہزاروں بلوچ فرزند مغوی ہیں، بھوک افلاس، بزگی و بدحالی انتہا پر ہے، بنیادی انسانی حقوق چھینے جا چکے ہیں، نوشکی و آواران میں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے سفید ریش بزرگ بلوچوں کی گود سے جوان بیٹیاں اغوا کر رہے ہیں، لاپتہ افراد سی ٹی ڈی کے ھاتھوں قتل ہو رہے ہیں، وڈھ میں لاشیں بچھاٸی جا رہی ہیں، ماٸیں سڑکوں پر در بہ در پھر رہی ہیں، بارشیں تباہی پھیلا چکی ہیں، سیما و سمی مسلسل احتجاج پر ہیں، کبھی کراچی پریس کلب تو کبھی کوٹٹہ مگر سننے والا کوٸی نہیں، ساتھ دینے والا کوٸی نہیں، آہیں ہیں، آنسو ہیں، چھوٹی بچیاں ہیں سیما و سمی کربلا کی زینب بنی ہوٸی ہیں، جو قافلے کی سربراہی بھی کر رہی ہیں اور ساتھ ساتھ وقت کے یزید سے لڑ بھی رہی ہیں۔

اس تباہی، ماتم اور جابر کی طرف سے ڈھاٸے گٸے ماحول میں گراٶنڈ پر موجود قوم دوست جماعتوں کو آگے آکر ریاستی جبر کے سامنے سیسہ پلاٸی دیوار بننا چاہیے تھا، زیارت میں شہید کیے گٸے لاپتہ افراد پر تو بھر پور طاقت دکھانی چاہیے تھی، مگر وہ تو وزارتوں، الیکشنی تیاریوں اور شمولیتی پروگراموں میں مصروف عمل ہیں اور ان کے بغل بچے ان کی فیس سیونگ کرکے عوام کو دھوکے میں رکھنے کی ناکام کوششں کر رہے ہیں۔

یہ واضح ہو چکا کہ موجودہ سیاسی جماعتیں عوام کا دفاع و تحفظ کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہیں اور ان میں ایسا قومی معیار و سیاسی جرأت بھی نہیں بچا کہ وہ اپنے کیے گناہوں سے توبہ تاٸب ہو کر پھر عوام میں لوٹیں اور ان کی نماٸندگی کریں۔ اس صورتحال میں اب ہر حساس سیاسی کارکن اور اہل دانش کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام میں جاٸے، عوام سے رجوع کرے اور خلوص و لگن کے ساتھ ان کو جوڑنے اور منظم کرنے کی کوشش کرے، ان کو اظہار دینے کی جتن کرے۔ اس ریاستی جبر و قتل و غارت، اغوا گیری و مارا ماری کے خلاف ایک منظم عوامی مزاحمت نہیں ہوگی، جب تک ان سفاک ہاتھوں کو ھزاروں لاکھوں بےبس بلوچ عوام کے ذریعے روکا نہیں جاتا تب تک ہم روز لاشیں اٹھاٸیں گے، روز بلوچ بچے اغوا ہونگے، ڈیتھ اسکواڈوں کی سرپرستی چلتی رہے گی، یہ درندے مسلسل گھر اجاڑتے رہیں گے، وطن کو تاراج کرکے بلوچ کو لہو لہاں کرتے رہیں گے۔ ان تمام طاغوتی لشکروں اور بلوچ وطن کو چھلنی کرنے والوں کی شکست و ریخت کےلیے ایک عوامی مزاحمت ناگزیر ہے۔ ایک عوام ہی ہے جو نجات عطا کرنے کی طاقت رکھتی ہے، جو ظالم حاکم کو شکست دینے کی قوت رکھتی ہے، جو زبردستی بزورِ بازو امن کے دیوتا وشنو کو راضی کر سکتا ہے۔ وطن کو غیر کے یلغار سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.