بامسار ایک شعور بھی اور خوف بھی

تحریر: سراج بلوچ

بلوچ سماج جہاں پر ظلم کے کالے بادل ہر طرف چھاٸے ہوئے ہیں، ہم اپنے پیاروں کی لاش تک پہچان نہیں پاتے بلوچ ماٸیں بہنیں سڑکوں پر در پدر ہو کر ریاستی مشینری کے نشانے پر ہیں۔ لیکن تب بھی بلوچ روشنی کی کرنوں کو لیے اس اندهیرے راستے کو عبور کر کل کے روشن سویرے کے لیے کمر بستہ ہیں۔

جہاں پر ریاست وینٹی لیٹر پر ہوتے ہوئے بھی بلوچ مزاحمت کو کرش کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کا سہارہ لے رہا ہے، پورا کا پورا ریاستی مشینری فقط بلوچ مزاحمت کو کچلنے پر تلی ہوئی ہے۔

لیکن وہیں پر بلوچ نے مزاحمت کا الم بلند کیا ہوا ہے، بلوچ سماج میں مزاحمت کی خوشبو بلوچستان کے شہروں سے آ رہی ہے۔

ساتھیو بلوچ تحریک کا حالیہ لہر شعور سے لیس ہو کر منزل کی طرف گامزن ہے آج بلوچ کا نا بالغ بچہ بچہ بھی مزاحمت سے سينگار ہو کر وطن کی دفاع میں کھڑا نظر آتا ہے۔

بی ایس او کی تاریخ ہمیشہ کٹھن حالات میں بلوچ تحریک میں شعوری مداخلت کی ہے، ہمیشہ مشکل حالات میں بی ایس او نے مزاحمت سے لیس كيڈر پیدا کیے ہیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی بی ایس او نے ایک نئی مزاحمتی شکل اختیار کر کے بلوچ تحریک میں بے پناہ بحث مباحثے کھولے ہیں، تحریک کو توانا کرنے کے لیے بے شمار سوال و تنقید اپنے مضبوط انقلابی کندھوں پر بامسار کی شکل میں لائی ہے۔

اس لیے بامسار کو میں شعور کہتا ہوں، بامسار تو روشن صبح کی نويد ہے جو ظم کی کالی چادر کو دھکیل رہا ہے۔ بامسار کی خوبصورتی کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کے بامسار بمہ وقت ریاست، سامراجی طاقتوں و بلوچ سماج میں ردِ انقلابی قوتوں کے ساتھ کشمکش میں ہے یہی وجہ ہے کے بی ایس او کے نعرہ کو میں ایک مکمل نعرہ سمجھتا ہوں۔

بامسار خوف ہے اس سے مراد وہ قوتيں جو ایک طويل عرصے سے بلوچستان کی محکومیت کا فاٸدہ اٹھا کر ایک سنگل پوانٹ ایجنڈا جو وہ کبھی بھی پورا نہیں کر سکتے اس کے ارد گرد ورد کر رہے ہیں جس سے بلوچ آبادی کا زیادہ حصہ جامد انداز میں ان حاجیوں کے حج کرنے کے بعد بلوچ سماج میں وسيلہ بننے کے انتظار میں ہیں۔ ان معصوموں کو کیا پتا سارہ معاملہ ان کی معصومیت کے ارد گرد گھوم رہی ہے ایسے میں بامسار کی شعوری مداخلت پورے سماج میں حرکت تو پیدا کرے گی۔

بامسار کے پاک پویتر مزاحمتی الفاظ ان ٹھیکہ داروں کے لیے کسی خوف سے کم نہیں ہیں۔ بامسار تو ان رد انقلابیوں کے لیے ایک آٸینہ بن کر اتر چکی ہے جہاں شرم سے وہ اپنا منہ چھپانے کے لیے بامسار سے شدید خوف میں ہیں وہ جانتے ہیں کہ بامسار کا ایک ایک لفظ سماج میں نئی روح پھونک رہا ہے۔ ارے بھائی عوام کے شعور سے ہی تو ردانقلابیوں کو خوف ہوتا ہے۔

سیاسی اختلافات کہاں نہیں ہوتے میں سمجھتا ہوں سیاسی اختلافات ہر تحریک کی خوبصورتی ہوتی ہیں۔ یہیں سے تحریک کو شکتی و حرکت ملتی ہے اور پھر تحریک توانا ہو کر مزيد مضبوط ہو جاتی ہے، سیاسی اختلافات سیاسی بحث مباحثہ سے حل ہوتے ہیں یہ نہیں کے اپنے سیاسی مخالفين کے سر ڈنڈوں سے پھوڑ لیں یہ طاقت کا نشہ ریاست کی طرف سے ہی کافی ہے ، بات یہ ہے کے ردانقلابی قوتوں کی تاریخ رہی ہے کے وہ اپنی طاقت کو ختم ہوتے دیکھ کر بڑ بڑا جاتے ہیں اور پھر کوئی بھی بہانہ حیلہ ڈھونڈ کر اپنے مخالفین کو شکست دینے کے لیے کوئی کثر نہیں چھوڑتے۔

مگر تاریخ میں یہ بات واضح ہے جب بھی وطن کے فرزندوں نے بی ایس او کی اصل اساس، نظریاتی لاٸن اور انقلابی رجحان کو سچاٸی اور خلوص سے اپنایا ہے وہ تب تب قوم کی امید و ترجمان بنے ہیں۔ آج ایک بار پھر وطن کے کچھ سر پھرے لاڈلے اس قومی ادارے کی اصل روح کو بحال کرنے میں جت گٸے ہیں یقیناً فتح وطن کے ان ہی لاڈلوں کا ہوگا۔ اور وطن پر ایک ایک نیا ”بامسار“ لانے کا سبب یہی بنیں گے کیونکہ بی ایس او اپنے قومی و انقلابی روایتوں ہر عہد میں دہراتی ہے۔ جب جب وطن کو ضرورت پڑی ہے یہ سرخ پرچم اٹھاٸے وطن کے لاڈلے چل پڑے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.