کچھ تو خوف ہے ان کتابوں سے۔

تحریر : محمد جان بلوچ

کون کھائے خوف کتابوں سے اور کتابوں سے بھلا کیوں؟ کوٸی خوف کھائے تو جبر سے کوٸی خوف کھائے تو خود بلوچ ہونے اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے سے زندانوں میں ازیت سہنے اور بعد میں مسخ شدہ لاش بننے سے، مگر کتابوں سے کوٸی خوف کھائے، یہ تو حیران کن بات ہے۔ بھلا کتابوں سے خوف کھا سکتاہے کوٸی؟ ہاں، مگر کیوں؟

اگر اس خوف سے کسی کا جسم لرزنے لگتا ہے کہ کتاب، دہشت گردی، غنڈا گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ قتل و غارت سماج میں انسان دشمن نفسیات کو جنم دیتا ہے تو پھر کھائیے خوف یہی خوف اس کی بدنصیبی ہے اور اس کی چھوٹی سوچ کی غماز ہے۔ اور اگر کوٸی یہ سوچ کر خوف کھا کر لرز اُٹھتا ہے کہ کتابی سوچ سے تعلم دشمن، کتاب دشمن اور جبر و ظلم انسانی مشقت کا استحصال قتل و غارت گری، غنڈا گردی کو اس کتابی سوچ و شعور کے زریعے روکا جاسکتا ہے، شعور بانٹا جاسکتا ہے، تو پھر کس بات کا خوف ؟؟؟؟ اور اگر کسی کو پھر بھی خوف ہے تو خوف اس کی شریانوں میں بسا ہے۔ یہ سماج کی مثبت پیش رفت سے خوفزدہ ہے۔

پھر اس خوف کے زندان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کتابی سنگر میں مورچہ زن ہوکر سماج میں جمودی قوتوں اور ردِ انقلابی تحریکوں سے بغاوت کرنی ہوگی۔ سماجی تبدیلی کے عمل میں جت جانا ہوگا، کتابی سوچ کو اپنانا اور کتاب دوست مطالعہ کے بھوکے ساتھیوں کا سہی معنوں میں تعین کرنا ہوگا۔ تبھی اس خوف کے چنگل سے خود کو آزاد کرنےکی جہدوجد رنگ لاٸے گی، تبھی اس خوف کو اپنے وجود سے ختم کیا جاسکے گا۔

جمودی قوتیں، بندوق بردار اور رد انقلابی طلبا کے گروہ ہمیشہ روشنی کا راستہ روکے رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے ساتھ خود کو جڑے رہنے سے یا پھر کتابوں سے دشمنی مول لینے سے یہ خوف ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گا، نہیں آخر کار ہم اس خوف کے آگے تھک ہار کے گُھٹنے ٹیک دینگے اور اس خوف کے ساۓ تلے ہمیں ریاستی زرخرید و بے ضمیر سکواڈز کی طرح کام پر لگا دیا جایگا۔ شعور و آگاہی کے برعکس ہم ظلم و ناانصافی کے قوانین پر کاربند رہ کر اپنی انسانیت کھو دے گے۔ اور ہم کتابوں سے کتابوں کے سنگر سے کتاب فروشوں سے کتابی رجحانات و شعور پھیلانے والوں سے یونورسٹیوں میں کتاب کلچر کو فروغ دینے والے بُک اسٹالز لگانے والوں سے خوف محسوس کرینگے اور کرتے رہینگے۔

اس خوف کے خلاف بغاوت کرکے علم و آگاہی و شعور کو نہیں پھیلایا گیا تو علمی درسگاہیں بلوچستان یونیورسٹی کی طرح چھاونیوں کا منظر پیش کرینگی۔ جہاں ہر زی روح خوفزدہ رہے گی، جہاں کتابوں کی جگہ کیمپسز کے اندر بندوق و گولیوں کا راج ہوگا۔ ہر روز ان جمودی ردِ انقلابی تحریکوں کی گود سے سُہیل اور فصیی کو بندوقوں والے لاپتہ کرلے جائینگے، یہ خوف یوں ہی منڈلاتا رہیگا، اور ہم بھٹکتے ہوئی آتما کی طرح جسکا کا کوٸی ٹھکانہ نہ ہو اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرے گے۔

کتاب دشمنی عام ہوگی تو قلم ٹوٹ کر روٹھ جائے گا، اور یوں انقلاب کی روشنی بھی مدہم پڑ جائے گی۔ اگر آپ واقعی چاہتے ہے کہ اس کتاب و تعلیم دشمن خوف کا اور اس خوف میں کتابوں سے خوفزدہ نفسیات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو تو آئیں تھام لے کتابوں کو اور پنھا لے اس کتابی سنگر میں اور للکارو اس خوف کو جو خوف تمھارا دم گھونٹ رہا ہے۔ کتابوں سے کتابوں میں چھپے رموز سے، ظلم کے خلاف بولنے اور لکھنے سے، یہ چیخ و پکار اور للکارتے ہوۓ الفاظ، جو ہر ظلم و ناانصافی کے خلاف ہے، ہمارا ساتھ دے گے آخری فتح تک۔

وہ جو سماج کو جمود میں رکھے ہوۓ ہیں اور سماج کو اندھیروں میں رکھ کر روشنی کی مشعل کو بجھانے پر تلے ہوئے ہیں، تاریخی طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ للکارے تاریکی کو، وہ صبح ہم ہی سے آئے گی، جدوجہد ایک نوید بن کر نئی بامسار لے کر آئے گی، جہاں خوف نام کی کوٸی شہ نہیں ہوگی، ہم انقلاب دیکھے گے۔ کتاب دوستی زندہ باد بی ایس او زندہ باد

Leave a Reply

Your email address will not be published.