بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن شال زون کا سینیٸر باڈی اجلاس جامعہ بلوچستان میں منعقد، اہم فیصلہ جات لیے گٸے۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری شال زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون کا سینئر باڈی اجلاس زیر صدارت مرکزی سیکریٹری اطلاعات فرید مینگل جامعہ بلوچستان میں منعقد ہوا۔ جب کہ اجلاس کی کاراوٸی زونل ڈپٹی آرگناٸزر کامریڈ بلاول کریم نے چلاٸی۔ اجلاس میں تعارفی نشست، عالمی و علاقاٸی صورتحال، تنظیمی امور، تنقید براٸے تعمیر اور آٸندہ کا لاٸحہ عمل زیر بحث رہے۔ اجلاس کا باقاعدہ آغاز بلوچستان سمیت دنیا بھر کے محکوم انقلابی شہدا کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔

تعارفی نشست کے بعد عالمی و علاقاٸی صورتحال پر بات کرتے ہوٸے ساتھیوں نے کہا کہ آج دنیا میں حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں، عالمی سامراجی طاقتوں کے آپسی تضادات کھل کر نئی جنگوں اور صف بندیوں کی صورت میں ابھر کر سامنے آ چکے ہیں۔ سماجی حالات کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پہلی دنیا میں بھی مجموعی سماجی شعور ظلم و جبر پر قائم اس نظام کے خلاف مختلف عوامی تحریکوں کی صورت میں اپنے غم و غصّے کا اظہار کر رہی ہیں۔ محکوم اقوام و غریب عوام کےلیے زندگی کے تمام دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ خوراک، روزگار، صحت، تحفظ سب انسان کے پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔ لیکن حاکم و سرمایہ دار طبقہ آج بھی دنیا کے بڑے حصے اور ذرائع پر قابو رکھتے ہیں۔ اس لیے عام انسان کی زندگی عدم تحفظ کا شکار جب کہ حاکم کو زندگی کی تمام تر سہولیات اور آسائشیں میسر ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک پر ان تضادات کا گہرا اثر پڑتا ہے جو زندگی کو مزید تلخ بنانے کی وجہ بنتی ہے۔
بلوچستان میں بھی جاری جنگی تسلسل میں تیزی و عام عوام کو بنیادی ضروریات زندگی سے محروم رکھنا اسی سامراجی تسلط کا نتیجہ ہے۔ آج بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاری نے مذید اس ریاست اور بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کا کردار برہنہ کردیا ہے۔ انفراسٹرکچر کی کمی اپنی جگہ لیکن اقربا پروری کے شکار منصوبوں سے مذید تباہیاں ہورہی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا بے گھر ہوجانا اور خوراک کی شدید قلت کے باوجود ریاستی مشینری فقط طلبا کو اٹھانے میں متحرک ہے۔ بلوچستان کی عوام کو اپنی مدد آپ اپنی بقا کیلئے سیاسی و عملی کام کرنا ہوگا۔

قاٸدین نے تنظیمی امور پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر حالات تیزی کے ساتھ کروٹ لے رہے ہیں تو ہم پر بھی بہت سی زمہ داریاں عائد ہوتی ہے کیونکہ بلوچ سماج پہلے سے دہائیوں پر محیط جبر و تسلط کا شکار ہے۔ ان جنگوں کی وجہ سے عام بلوچ عوام کی زندگی مزید تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بی ایس او کے جہدکار اپنی قدر و قیمت کا ادراک کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں اور سماج کو یکجا کرنے میں ترقی پسندانہ کردار ادا کریں۔ تعلیمی اداروں کی زبوں حالی پر بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ جامعہ بلوچستان یہاں کی سب سے پرانی اور واحد سرکاری یونیورسٹی ہونے کے باوجود مسائل کے انبار کے سوا کچھ نہیں دیا گیا۔ ہاسٹلز میں سہولیات کا فقدان، فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ، اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں من مرضی اور انتظامیہ کی بے جا بد معاشی اور غیر معیاری خوراک جیسے کئی دوسرے مسائل آج بھی وجود رکھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو ان کے بنیادی مسائل کے گرد جوڑ کر طلبہ کے بنیادی حقوق و اختیارات بحال کیے جاسکیں۔

آئندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے میں فوری اہداف کا تعین کرتے ہوئے اہم فیصلہ جات لیے گئے جس میں یونٹس کی تشکیل، مختلف سیاسی، سماجی و علمی حلقوں میں بامسار کی تقسیم، ہفتہ وار اسٹڈی سرکلز کا انعقاد اور فاٸنانس کمیٹی کی تشکیل کے فیصلے شامل تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.