خضدار میں ہفتہ واری سرکل بامسار کی تحریر خضدار کی تاریخ اور رابعہ خضداری کے موضوع پر منعقد ہوا۔ بی ایس او خضدار زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن خضدار زون کا ہفتہ وار اسٹڈی سرکل بامسار کے دوسرے ایڈیشن میں سنگت سراج بلوچ کے آرٹیکل ( خضدار نا گْونڈ تاریخ و رابعہ خضداری) پر منعقد ہوا جس میں سرکل کا آغاز دنیا بھر کے انقلابی و بلوچ شہدا کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا اور بلوچ شہدا کو خراجِ عقیدہ پیش کرنے کے لیے ان کی یاد میں ساتھیوں نےانقلابی اشعار گائے

۔ سرکل کے پہلے حصے میں ( خضدار نا گْونڈ تاریخ ) پر سنگت حظیفہ بلوچ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ خضدار تاریخی طور پر مختلف ناموں سے پہچانا گیا ہے اور خضدار کے لیے بہت سے الفاظ سامنے آئے ہیں جیسے کہ کزدار ، قصدار ،قضدار  کوریان ، اور عربوں نے خضدار کے لیے طوران لفظ کا بھی انتخاب کیا ہے اور ایک عہد اسی نام سے تاریخی طور پر سامنے آتا ہے۔ خضدار ایک تجارتی مرکز رہا ہے یہاں سے سندھ، افغانستان، مکران ، پنجاب کے راستے ہوتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اسی لیے یہاں پہ تجارتی غرض سے عرب اور سیستان ایران سے بھی لوگوں کی آمد و رفت رہی ہے، بلوچستان کے اہم شہروں کے ضمن میں خضدار کا نام تواتر سے آتا ہے۔

ابن حوقل کے بیان کی روشنی میں یہاں کے عرب حاکم نے عباسی خلیفہ کا نام خطبہ میں شامل کیا۔ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں اسے ایک ایسا شہر قرار دیا ہے جو طوران نامی ایک زرخیز ضلع میں واقع ہے جہاں انگور، انار اور دوسرے پھل پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اس ضلع کو خوارج کا مسکن بتاتا ہے۔ البلاذری نے سندھ میں ہونے والی مسلم فتوحات کے باب میں خضدار کا ذکر قصدار کے نام سے کیا ہے ۔

جب سیستان میں اناج کی قلت ہوتی تو خضدار سے سسیتان کے لیے اناج منتقل کیا جاتا تھا تاریخی طور پر یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ خضدار نام حضرت عیسی علیہ السلام کی پیداٸش سے چار سو سال قبل استعمال ہوتا رہا ہے اسی طرح خضدار میں قدیم آثار کی دریافت بھی سامنے آئی ہے خضدار شہر سے  کچھ  ہی  فاصلے پر ایک پہاڑ (جسے وہاں کے مقامی لوگ ” ڈراکھیل “ کے نام سے پکارتے ہیں) کے درمیان ایک سُرنگ ہے جس کے دروازے پر کچھ الفاظ لکھے گئے ہیں جو خضدار کے قدیم ہونےاور یہاں پہ ایک پرانے عہد کی گواہی دیتے ہیں خضدار شہر کے اندر دو صحابہ کرام کے مزارات بھی موجود ہیں اور وہی ہندو برادری کی ایک کثیر تعداد بھی ہے جو صدیوں سے خضدار کی تاریخ کا حصہ ہے ۔

سرکل کے دوسرے حصے (رابعہ خضداری) پر سنگت شاہ جہان بلوچ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ رابعہ خضداری ایک شہزادی تھی جو رابعہ بنت الکعب القزداری یعنی کعب بادشاہ کی بیٹی تھی  آج بھی خضدار شہر میں ایک روڈ اس کے نام سے منسوب ہے۔

رابعہ خضداری کا زمانہ چار صدی ہجری کا زمانہ تھا جس وقت خضدار کے اندر ادب، علم، ساٸنس، فنون موجود تھے یہاں کے لوگ مشاعرہ کرتے اور دیوان بھی سجایا کرتے تھے رابعہ کو کم عمری سے ہی شاعری کا شوق تھا اور یوں عمر کے ساتھ اور اپنی قربانی کے نتیجے میں انہوں نے عوامی سطح پہ اور خطے کی شاعری میں بھی جانا گیا۔ جس کی بدولت آج خضدار رابعہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے، رابعہ اور بختس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کی قبریں خضدار میں موجود ہیں، میری گھٹ کی طرف ایک قبرستان میں ”ماہی گھتی“ کی قبر رابعہ خضداری کی قبر ہے اور تاریخ میں یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کھٹان میں ایک قبر ہے جو بختس کی ہے ۔ مزید موضوع پر بات کرتے ہوئے ساتھیوں نے کہا کہ خضدار مزاحمتی طور پر بھی ایک تاریخ رکھتا ہے اسی طرح قدیم تاریخ میں بھی خضدار کی اپنی ایک حیثیت رہی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.