ٹارچر

تحریر : جلال جورکؔ

دراصل تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی، اور ذلت آمیز سلوک یا سزا انسانی وقار کی خلاف ورزی ہیں اور ہر وقت اور ہر حال میں بالکل ممنوع ہے۔ یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ اذیت (TORTUTRE) ریاستی ایجنٹوں کی طرف سے یا اس کی منظوری سے شدید ذہنی یا جسمانی درد یا تکلیف کا جان بوجھ کر کسی مغلوب کو دیا جانا ہے۔

تشدد ( TORTURE) سے صرف یہ مُراد نہیں کہ کسی شخص کو جسمانی طور پر مار پیٹ کر ازیت دینا بلکہ سیاسی، سماجی، مذہبی، علاقائی اور گھریلو مسائل کے تحت لوگوں کو زہنی دباؤ کا شکار بنانا بھی بد تریں اذیت تصور کی جاتی ہے۔ جس سے کسی بھی ریاست کا عام شہری بُری طرح سے متاثر ہو کر درپہ دری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

اِسی عمل کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو بلوچ قوم پچھلے کٸی دہائیوں سے اس کرب سے گُزر رہے ہیں۔ اور خاص کر بلوچ خواتیں جو کہ عرصہ دراز سے کبھی گھریلو ناچاکیوں کے تسلط سے مسلسل ٹارچر ہوتے رہیں تو کبھی نسلی سْیاسی سماجی اور ثقافتی بنیاوں پر جسمانی اور زہنی تشدد کا شکار رہی ہیں۔ مگر اب اس تسلسل کو سامراجی نوآبادیات مسلط حاکم کی سربراہی میں بلوچوں پر ایک اور رنگ میں مسلط کیا ہوا ہے۔

اگر تاریخی طورپر دیکھا جائے تو (تاریخ بلوچستان) گل خان نصیر کے مطابق جب بلوچ کوہ البرز میں تھے تو جملہ علاقے کے نواب نوشیروان عادل کے ظلم و جبر سے بلوچ خانہ بدوشی کی زندگی گزانے پر مجبور تھے۔ یہاں تک کے اس عہد میں بلوچ عورتوں کی عزتیں تک محفوظ نہ تھے۔ اور جابر بادشاہ عادل کے حکم کے مطابق انتظامی عہدہ داران کو یہ ہدایت تھی کہ بلوچون کو یا تو مار دیا جاتا یا تو گرفتار کیا جاٸے تاکہ بلوچ کا نام و نشان باقی نہ رہے۔

اس جبر اور تشدد زدہ زندگی سے چھٹکارا پانے کےلیے سردار جلال خان کی سربراہی میں بلوچوں کے چالیس قبیلوں نے کوہ البرز کے علاقے چھوڑ کر موجودہ بلوچستان کے علاقے مَکران، خاران، لسبیلہ اور جھلاوان کے پہاڑون میں نئے سِرے سے زندگی کی ابتدا کی۔

یہ سلسلہ تھما نہیں تھا کہ انہیں عرب، سندان، پرتگیزی اور انگریزی سامراجیت کے ظلم کا بھی سامنا کرنا پڑا۔مگر لالین شہید میر مھراب خان جیسے عظیم جنگجوٶں نے برطانوی سامراجیت کو ختم کرنے کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں اور بلوچ قوم کو خوشحالی کی طرف راغب کرنے کےلیے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔

یہی نہیں بلکہ بلوچ عوام ایک تسلسل کے تحت علاقائی اور بیرونی قوتوں کے جبر و تشدد کا شکار رہی ہیں۔ کبھی تو نسل پرستی کے نام پر بلوچ عوام کی تذلیل ہوتی رہی تو کھبی قبائلی جنگوں کے شکار بلوچ عوام نے آج تک اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کیا۔ رند و لاشار کے جنگوں میں ایک لمبے عرصے تک عام بلوچ ظلم و تشدد کا شکار رہا ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہے۔ اور جسمانی اور زہنی تشدد سے ازیت حاصل کرتے رہے۔

بلوچ سیاسی جہدکار یوسف عزیز مگسی اور اس کے رفقا نے انگریز قبضہ گیر کے خلاف جدوجہد کی تو صعوبتیں اور اذیتیں برداشت کرتے رہے، برطانوی سامراج نے ان کی کتاب “فریاد بلوچستان” کو بین کر دیا اور انہیں نظر بند کرکے جیل میں پھینک دیا۔

چہتر سال قبل جب موجودہ ریاست نے بلوچوں کی حق حاکمیت کو ختم کرکے بلوچوں کو ان کے ہی وطن میں محکوم بنایا تو آغا عبدالکریم، نواب نوروز اور شیروو مری جیسے غیرت مَنْد بلوچوں نے نوآبادیاتی قوت اور مسلط حاکم کے خلاف جدوجہد شُروع کی اور ایک تسلسل کے ساتھ قومی تحریک کا آغاز کیا مگر پھر بھی بلوچ جسمانی اور زہنی تشدد کا شکار ہی رہا۔

جب ورنا وانندہ گل دو دوسرے گروپ کے یکجہتی سے بی ایس او کا قیام عمل میں آیا تو بلوچ سْیاست پھر سے ایک نئے رنگ میں مظلوم قوم کی آواز بنی اور نہ صرف بلوچستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بلوچ عوام کی چیخ و پکار پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اور یہیں سے بلوچ نوجُوان ایک الگ دروشم سے سْیاست، سماج، اور ادب کے ساتھ وابستہ ہو کر شعوری طور پر اپنی مظلومیت کو دور کرنے کے جہدو جہد شروع کی۔
چونکہ بلوچ عوام ایک طویل عرصے سے اندرونی اور بیرونی طور پر جسمانی اور زہنی تشدد کا شکار رہے تھے ۔ تو یہی وجہ تھی کہ اس بار بلوچ طلبا اور تعلیم یافتہ طبقے نے یک مشت ہوکر جہدو جہد شروع کیا۔

مگر المیہ یہ تھا کہ بلوچوں کا یہ عمل نوآبادیاتی سامراج کو گَوارا نہ ہوا اور اس نے تاریخی تسلسل کو دہراتے ہوئے بلوچوں پر کریک ڈاون شروع کردیا اور ایک بار پھر بلوچ مرد اور عورتوں کو سماجی، سْیاسی، اور ثقافتی ھوالے سے زہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنا کر جیلوں میں بند کرکے قتل عام شروع کیا۔

اسی جبری تسلسل کے تحت 1948 سے آج تک بلوچ طلبا اور سْیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیاں زور شور سے شروع ہوئیں۔ اس جبری گمشدگی کا شکار نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی اس جبر و تشدد کو برداشت کرتی رہی ہیں۔ اس عمل کے خلاف روز اول سے بلوچ عوام اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مختلف فورم پہ مسلسل آواز بلند کرتی رہیں جو کہ آج تک جاری ہے۔

چونکہ ہر ریاست اپنے آئین و قانون کا پابند ہوتا اور ہر ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق فَرائم کرنے کا تگ و دو کرتا ہے تاکہ ہر شہری پُر امن زندگی گزار سکے۔ مگر المیہ یہ ہے بلوچ پچھلے کٸی دہائیوں سے جبری گمشدگی کا شکار ہورہے ہیں مگر نہ انہیں عدالت میں پیش کیا جارہا ہے اور نہ ہی اس جبری تسلسل کو ختم کیا جارہا ہے۔

پس یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلوچ قوم اپنی نسل کے اولین فرد سے آج تک مختلف عناصر کے ہاتھوں مسلسل زہنی اور جسمانی تشدد کا شکار رہی ہے۔ اور یہ ایک غیر قانونی اور غیر تہذیبی عمل ہے جس سے ایک قوم کا استحصال ہوتا ہے اور بے سکونی کے اس عالم میں عوام درپہ دری کی زندگی گُزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بلوچ کو اس اجتماعی جبر و ٹارچر میں رکھنے کی بجاٸے اسے نجات عطا کی جاٸے اور آزاد فضاٶں میں سانس لینے دی جاٸے تاکہ وہ ایک عام انسان کی زندگی گزار سکیں۔

مگر مسلط جبر تو پھر اپنی مرضی سے نہیں ہٹتا، متشدد طاقت اس وقت تک تشدد و ٹارچر اور جبر کرتا رہتا ہے جب تک یا تو مظلوم کا جسم مکمل طور پر فنا ہو جاٸے یا پھر اس حاکم کا ہاتھ ٹوٹ جاٸے، اس متشدد ہاتھ کو ایک عوامی طاقت و تواناٸی کے ساتھ روکا جاٸے۔ اسے اس غیر انسانی عمل اور بد تہذیبانہ کردار سے ایک اجتماعی سیاسی مزاحمت کے ذریعے روک کر شکست دی جاٸے۔ اور بلوچ کو امن کا سانس لینے کے لیے ٹارچر سے نجات حاصل کرنے کےلیے، اپنے پیاروں کی بازیابی کےلیے ایک ایسے ہی سیاسی طاقت کی ضرورت ہے جس کا والی وارث اور رہبر و رہنما عام بلوچ ہو، ہر گدان اس میں شریک ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.