مجرم کون۔۔۔۔۔؟

تحریر: فرید مینگل

بلوچ گلزمین پچھلے چہتر سالوں سے نوآبادیاتی جبر کا سامنا کر رہی ہے۔ نوآبادیاتی علاقے تو پھر اجتماعی طور پر گوانتا ناموبے بنتے ہیں، ابو غریب بنتے ہیں و عقوبت خانے بنتے ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ، شناخت و ثقافت، زبان و پاک پوتر مٹی، ساحل و ساٸل ظالم کے زیر دست ہوتے ہیں، وہ پھر ان کے ساتھ وہی کچھ کرتا ہے جو کچھ سامراجی یورپینز نے مقامی امریکیوں کے ساتھ کیا۔ محکوم نوآبادیاتی اقوام و طبقات کو بھوکا مارنے، وطن بدر کرنے، لاپتہ کرنے، شناخت مٹانے، تاریخ مسخ کرنے کی ساری شیطانی سوچ و پالیسیاں وہی رکھتا ہے اور بزورِ بازو ان پر عمل در آمد بھی کرتا رہتا ہے تا آنکہ محکوم مزاحمت کی انگڑاٸی نہ لے اور اس حاکم کو وطن بدر کرنے کی کاوشیں نہ کرے۔

بلوچ بھی اس وقت ایسے ہی کسی حاکم کی یلغار میں ہے، وطن تقسیم کر کے لہو لہان کیا جا چکا ہے، وطن کے لاڈلے عقوبت خانوں کی نذر کر دیے جا چکے ہیں، طلبہ، وکلا، اساتذہ و صحافی گولیوں سے بھون دیے گٸے ہیں، گلزمین اپنے فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں اگل رہی ہے، غاصب دندناتے پھر رہے ہیں۔

ایسی بدحال کیفیت میں قوموں کے ضامن و رکھوالے سیاسی تنظیمیں ہوتی ہیں جو وطن و چمن سب کے محافظ بنتے ہیں اور ساتھ ساتھ حاکم سے بھی لڑتی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ بلوچ کے پاس تنظیم نہیں رہی ہے، بلوچ کے پاس ایک طاقتور انقلابی تنظیم رہی ہے جس نے ہمیشہ بلوچ کے اجڑتے باغ کو سنبھالنے اور آباد کرنے کی بات کی ہے، عملی طور پر اس پر اتر کر جانیں نچھاور کی ہیں، مگر بدمست حاکم کی مکاری و جبر و بربریت نے اسے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اور اسے بڑی سفاکی سے بار بار کچلا ہے۔ وہ انقلابی تنظیم و درسگاہ بی ایس او رہی ہے، اسی عظیم درسگاہ نے ایسے فرزند پیدا کیے ہیں جنہوں نے نہ صرف غاصب کا گریبان پکڑا ہے بلکہ اس کے سہولت کاروں کو بھی اپنی تنقید کے زد میں ہمیشہ رکھا اور للکارا ہے۔

لیکن آج بلوچ کی بدبختی کہیے کہ مسلط حاکم کی خوش بختی و زورآوری اس وقت سرفیس پر پارلیمانی بلوچ سیاسی جماعتیں اس لوٹ مار و استحصال میں حاکم کی شریک کار و سہولت کار بنی ہوئی ہیں جو کہ حاکم کو میڑھ منت کرکے فقط اپنا حصہ وصول کرنے کےلیے کبھی جام بھگا رہی ہیں تو کبھی قدوس و سرفراز لا رہی ہیں۔ وطن لٹتا ہے لٹ جاٸے، بلوچ مرتا ہے مر جاٸے مگر ان بد بختوں کو بلوچ کے جسم سے نوچے ہوئے گوشت میں سے حصہ چاہیے، سیندک میں کھداٸی کا پروجیکٹ چاہیے، ٹھیکہ و کمیشن اور نٸی سے نٸی گاڑی و بنگلہ چاہیے۔ بلوچ کے استحصال پر شور و غوغا کرتے کرتے ماضی میں ہماری طرح بدحال زندگی گزارنے والے فقیر آج ارب پتی امیر بن چکے ہیں، جن کے پالتو جانوروں کی غذاٸیں جرمنی سے آتی ہیں اور ان کے پڑوس میں عام بلوچ بزگر بھوکا سوتا ہے۔

ان موقع پرستوں اور سودے بازوں کے تمام تر کردار کو جانچ کر جب کچھ وطن کے شیداٸی سرپھروں نے درست تجزیہ کیا کہ اگر بلوچ کو تحفظ دینا ہے، وطن کو بچانا ہے، گلزمین کی حفاظت کرنی ہے تو ایک بار پھر اس انقلابی تنظیم و درسگاہ کو اس کے فکری و انقلابی نظریات کے ساتھ پھر سے بحال کرنا ہوگا، اسے پارلیمانی موقع پرستوں کا دم چھلہ بناٸے رکھنے کی بجاٸے پھر سے اس کو بلوچ بزگر و شوان کی محافظ درسگاہ بنانا ہوگا۔اور انہوں نے یہ کرنے کی ٹھان لی اور بی ایس او کی بحالی کا وچن لیے نکل پڑے۔

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کو بی ایس او کے یر غمالیوں کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا یا پھر وہ ان کی شرمناک کرتوتوں سے نا واقف تھے، نہیں بالکل بھی نہیں۔ وہ ان کی تمام تر وحشت و سفاکیت اور بدمعاشیوں سے آگاہ بھی تھے اور ان کا سامنا کرنے کو تیار بھی۔ یہ وہ دور تھا جب ان میں سے کسی سے سر محفل کوئی تعارف پوچھتا تو یہ حضرات پہلے اپنی پارلیمانی پارٹی کا تعارف کرتے پھر دبے ہونٹ بی ایس او کہہ کر ایک لاحقہ جڑ دیتے تھے ۔

آج جب بی ایس او کے ساتھی ایک بار پھر اس لال انقلابی پرچم کو تھامے آگے بڑھ رہے ہیں، لٹریچر و کتاب کلچر کو پروان چڑھا کر قومی تاریخ و بی ایس او کے انقلابی روایات کو زندہ کر رہے ہیں تو ان جتھوں کے پیٹ میں ایک بار پھر مروڑ آ رہا ہے۔ کیونکہ ان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ جب جب بی ایس او کا لال انقلابی پرچم وطن کی فضاٶں میں آب و تاب کے ساتھ لہراتا ہے تو ان استحصالیوں، موقع پرستوں و سودے بازوں کا دم گھٹنے لگتا ہے، ان گِدھوں کو وطن نوچنے کی اس طرح کھلے عام ہمت نہیں ہوتی، وہ اس طرح پارلیمنٹ میں قدوسوں و جاموں کو کندھوں پر بٹھائے نہیں لا پاتے، نہ ہی سہولت کاری کے عوض اپنی مَن مرضی کی سودے بازی کرکے ٹھیکے، کمیشن، مراعات لے سکتے ہیں۔

بی ایس او کے کاروان کے ابھار پر انہی پارلیمانی پیٹ پرستوں کا ایک بار پھر دم گھٹنا شروع ہوا، بی این پی مینگل کے طلبہ ونگ نے اس کارِ بد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، انہوں نے گھبرا کر اس کاروان کی مخالفت کی، گھبراہٹ اور خوف ان کا مقدر ہے کیونکہ بی ایس او کی سوچ و فکر میں وہ تواناٸی اور شکتی ہے کہ وہاں مسلط بیرونی حاکم سمیت مقامی سہولت کار استحصالیوں کےلیے کوئی گنجاٸش نہیں بچتی۔ شروع شروع میں یہ ڈرانے و دھمکانے سے کام چلاتے رہے جب احساس ہوا کہ بی ایس او کے ساتھی ڈرنے والے نہیں تو انہوں نے براہ راست اپنی غنڈہ گردی شروع کی جو کہ ان کا شیوہ ہے۔ اور اس کام میں وہ ہمیشہ سے آگے آگے رہے ہیں، ایسی کوٸی طلبہ تنظیم نہیں جس کو انہوں نے ڈرایا دھمکایا نہیں ہوں یا پھر ان سے مار پیٹ نہیں کی ہو۔ اگر منافقت اور بغضِ معاویہ سے بچ کر ہمارے اہل دانش سچ کہنے کی جرأت کرلیں تو ان کی داستانیں ان سے بہتر کوٸی نہیں بتا پاٸے گا کہ بی این پی کے طلبہ ونگ نے کتنے لوگوں کو مارا پیٹا ہے اور کہاں کہاں انہوں نے ڈنڈہ برداری و غنڈہ گردی کی ہے ۔

بی این پی کے طلبہ وِنگ نے نومبر 2019ء میں بی ایس او کی ریلی پر اس وقت حملہ کیا جب بی ایس او کے ساتھی بی ایس او کے یومِ تاسیس پر مارچ کر رہے تھے۔ اس وقت بی ایس او کے مرکزی سینیٸر واٸس چیٸرمین سمیت دیگر ساتھی شدید زخمی ہوٸے ۔

ان کی غنڈہ گردی کا یہ سلسلہ بدستور جاری رہا مگر بی ایس او کے ساتھیوں نے ہمیشہ ان کو مکالمے کی دعوت دی، عقل و دلیل سے عاری یہ مافیا مکالمے کے بجائے ہمیشہ شدت پسندی و ڈنڈہ برداری کا قاٸل رہا ہے۔

اسی ڈنڈہ برداری اور یونیورسٹی انتظامیہ و بی این پی کی طاقت کا سہارا لے کر کل 17 اگست 2022ء کو ایک بار پھر بی ایس او کے ساتھیوں پر حملہ آور ہوٸے اور فیمیل ساتھیوں سمیت بی ایس او کے مرکزی جونیٸر جواٸنٹ سیکریٹری شیرباز بلوچ کو شدید زخمی کیا جو کہ ابھی تک سول ہسپتال میں ایڈمٹ ہیں۔ آج یہ اپنے اس شرمناک عمل کو صحیح ثابت کرنے کےلیے بلوچ لاپتہ افراد کا کارڈ استعمال کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور اپنے سیاہ اعمال کو چُھپانے کےلیے سرگرم ہیں۔

جس طرح بی این پی نے ایک طویل دورانیے تک لاپتہ افراد کے مسٸلے کو الیکشنی مہموں میں استعمال کیا اور پھر جا کر شش نکاتی معاہدہ کیا جس میں لاپتہ افراد کے مدعے کو نیشنل ایکشن پلان نامی بدنام زمانہ بلوچ و پشتون کی نسل کشی پر عمل در آمد سے جوڑ دیا اور وزارتیں بٹوریں۔

لیکن بی ایس او کے ساتھی نہ صرف جبری گمشدگیوں پر لاپتہ افراد کے فرنٹ کی غیر مشروط حمایت کی ہے بلکہ اس جدوجہد میں خود بھی جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں، لیکن قومی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے سے دستبردار نہیں ہوٸے۔

کسی بھی قومی تحریک میں سماج کے مختلف پرتوں کے اپنے نماٸندہ فرنٹس ہوتے ہیں جو اپنے داٸرہ کار میں اپنی زمہ داریاں نبھا رہے ہوتے ہے مختلف فرنٹس کے برابر ترقی و کنٹریبیوشن سے قومی تحریکیں منظم و توانا ہوتے ہیں، جن میں مزدور، وکلا، ڈاکٹر، طلبہ،اساتذہ، اہل دانش و ادیب، بزگر و شوان الغرض محکوم سماج کی ہر پرت کا نماٸندہ فرنٹس کا ہونا اور ان فرنٹس کے بااہمی جدوجہد سے انقلابی ماس فرنٹ تشکیل دینا قومی محکومی سے نجات کا باعث ثابت ہوسکتی ہے۔ طلبہ فرنٹ کی طرح لاپتہ افراد کا ایک متحرک فرنٹ بلوچ سماج میں موجود ہے اور بی ایس او نے اسے کمک و تواناٸی فراہم کرنے کی کاوش کی ہے البتہ کبھی فیصلہ سازی میں حصہ نہیں لیا کہ یہ حق اس فرنٹ کی میچور ترین قیادت کا ہے اور وہ بہتر فیصلہ سازی کر سکتی ہے۔ لاپتہ افراد کی حالیہ تحریک میں بھی بی ایس او کے ساتھی مسلسل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کی قیادت کے ساتھ سیاسی مشاورت میں رہے اور غیر مشروط حمایت جاری رکھی البتہ سیاسی منافقت اور دوغلا پن سے خود کو دور کیے رکھا۔

آج بی این پی کا طلبہ وِنگ انہی لاپتہ افراد کے مدعے کا سہارا لے کر بی ایس او پر بیہودہ الزام تراشیوں اور کردار کشی میں مصروف عمل ہے اور دو دہائیوں سے طلبہ پر جاری رکھے اپنی پرتشدد کردار پر پردہ اوڑھنے کی کوشش میں ہے مگر تاریخ کے اس موڑ پر جہاں بلوچ مجموعی طور پر بڑے سیاسی و سماجی تجربات سے گزرتے جدید عہد میں داخل ہوچکا ہے وہاں بی ایس او بھی اس قابل توانائی رکھتی ہے کہ پارلیمانی قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے سامراجی سہولتکاروں کے اصل کردار کو عوام کے سامنے لاتے ہوئے عام عوام و انقلابی کارکنوں کی دفاع میں بلوچ حکمرانوں کو بھی للکار سکے۔

سوال یہ ہے کہ بی ایس او کا بک اسٹال ہو یا یونیورسٹی انتظامیہ اور جامعہ کے ملٹراٸزیشن کے خلاف احتجاجی مارچ یہ سب یونیورسٹی کے احاطے میں تھے اور یہ کام طلبہ فرنٹ کی ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ ایک عام سے بک اسٹال کو انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس کی سہولت کاری کرکے کیوں روکنے کی کوشش کی ؟ اور ایسے وقت میں روکا اور ہنگامہ برپا کیا جب لاپتہ افراد کی تحریک جاری ہے، جب ان کی اس چال کو بی ایس او کے ساتھیوں نے ناکام بنا کر بک اسٹال کا انعقاد بھی کیا اور تسلسل سے لاپتہ افراد کے دھرنے میں بھی شامل ہوٸے تو انہوں نے لاٹھیوں، ڈنڈوں اور پستول و کلپس سے مسلح ہو کر براہِ راست یونیورسٹی کی احاطت میں بی ایس او کے مارچ پر غنڈہ گردانہ حملہ کرکے میل و فیمیل ساتھیوں کو زدوکوب کرکے زخمی کیا۔

یہاں پر ایک بات واضح طور پر بتاتا چلوں کہ اس مارچ کے متعلق لاپتہ افراد کے تحریک کے قاٸدین سے ڈسکشن ہوٸی تھی اور اسی لیے اسے دوپہر 12 بجے رکھا گیا تھا تاکہ ساتھی ایک گھنٹے کے اندر اندر احتجاج سے فارغ ہو کر لاپتہ افراد کے احتجاجی مارچ میں شامل ہوں جو کہ شام چار بجے منعقد کیا گیا تھا۔

یہ ریلی تو ایک گھنٹے میں ختم ہونا تھا تو اس پر بی این پی کے طلبہ وِنگ نے بھر پور تیاری کے ساتھ کیوں حملہ کیا۔۔۔۔۔۔؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ طلبہ وِنگ پارٹی کی ایما پر یہ سب غنڈہ گردی کر رہا ہے تاکہ پارٹی کی فیس سیوِنگ کی جا سکے جس نے سالوں سے لاپتہ افراد کا کارڈ استعمال تو کیا مگر لاپتہ افراد کے لواحقین گزشتہ 32 دنوں سے دھرنے پر ہیں تو پارٹی قیادت غاٸب ہے اور حکومتی وفود کے ساتھ آ کر دھرنا ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔۔۔۔؟ جب ان کا مطالبہ مسترد ہوا تو انہوں نے اپنی لے پالک تنظیم کو فیس سیونگ کے لیے آگے لا کھڑا کیا اور بڑی مکاری سے تماشا دیکھتے رہے.

یہاں پر سوال تو یہ بھی ہے کہ جب بی ایس او کے ساتھیوں نے وی بی ایم پی کی قیادت کے ساتھ اس مارچ کے متعلق باقاعدہ ڈسکشن کی تھی اور احتجاجی مارچ کو جلد ختم کرنے اور پھر لاپتہ افراد کے مارچ میں شرکت کرنے پر بات کی تھی تو بی این پی کے طلبہ وِنگ نے غنڈہ گردی کے تحت مارچ پر حملہ کیوں کیا اور پھر خود ساختہ طورپر لاپتہ افراد کے فرنٹ کا نماٸندہ بھی بنے جب کہ تحریک کی قیادت اس وقت بھی وہاں موجود ہے۔ بی این پی اور اس کی قیادت نے خود ساختہ طورپر لاپتہ افراد کے ایشو پر منافقانہ سیاست اور ٹھیکہ داری کرنے کا بیڑا کیوں کر اٹھایا ہے۔۔۔۔۔؟

ہم سمجھتے ہیں کہ باقی تمام فرنٹس کی طرح طلبہ فرنٹس کی بھی قومی ذمہ داریاں ہیں ان کو نبھاتے رہنا چاہیے اور ساتھ ساتھ لاپتہ افراد کے تحریک سمیت دوسرے تحاریک کو بھی مسلسل تواناٸی فراہم کرتے رہنا چاہیے اور بی ایس او کے ساتھی یہی کر رہے ہیں۔

اس وقت لاپتہ افراد کی تحریک کو طلبہ فرنٹ سے زیادہ نیشنل پارٹی اور بی این پی کے توجہ اور شرکت کی ضرورت ہے مگر ان دونوں جماعتوں نے بڑی مکاری سے اپنے ذیلی تنظیموں کو اس مدعے پر نام نہاد طور پر لگا کر اور ڈنڈہ ماری کر کے اپنا مکروہ چہرہ بچاٸے رکھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور خود الیکشنی مہموں، شمولیتی پروگراموں، ٹھیکوں، وزارتوں کے گھن چکر میں مصروف عمل ہیں۔ جب کہ لاپتہ افراد کی قیادت بارہا ان سے اپیلیں کر چکی ہے اور مختلف اوقات میں ان کی اس بے حسی کا اظہار کر چکی ہے۔ ان کی ذیلی طلبہ تنظیمیں پارٹی قیادتوں کو جوابدہ کرنے کی بجاٸے الٹا انہی کے گُن گا کر مجرمانہ طورپر ان کی فیس سیونگ کر رہی ہیں۔

ان تمام تر موقع پرستانہ رویوں، منافقانہ پالیسیوں اور مجرمانہ اعمال کے باوجود اگر یہ شدت پسند، تعلیم دشمن اور انتظامیہ کے سہولتکار عناصر پاک پوتر، شُدھ بے قصور ہیں تو پھر مجرم کون ہے آخر۔۔۔۔۔۔؟

اگر ہمارے نام نہاد دانشور فقط بی ایس او کے نظریات کی وجہ سے اس انقلابی تنظیم سے متنفر ہیں اور ڈنڈہ برداروں کے جراٸم پر خاموش رہ کر بی ایس او کو اپنے بازاری فیسبکی پوسٹس کے تحت مجرم قرار دینے کی بچکانہ حرکت کرتے ہیں تو پھر مجرموں کی یہ فہرست فقط بی ایس او کے کارروان پر نہیں رکے گی، یہ فہرست بی ایس او کے انقلابی کارروان سے ہوتے ہوٸے شاہین، حمید، فدا، خیربخش و شیرو مری، ماما عبداللہ جان جمالدینی و گل خان نصیر بابو شورش و امین کھوسہ اور جدیدی بلوچ نیشنلزم کے بانی اکابرین یوسف عزیز مگسی و عبدالعزیز کرد تک جاٸے گی کیونکہ یہ سب کے سب انقلابی قوم دوستی کے قاٸل ہمارے ہیروز ہیں اور مارکس وادی افکار رکھنے والے قومی رہبر و راہشون ہیں۔ اور بی ایس او کے ساتھی ان دوغلے سیاسی منافقوں کی بجاٸے اس عظیم فہرست میں رہنا پسند کریں گے۔ اپنے اسلاف کی ان نظریات و بی ایس او کے لال انقلابی پرچم کو سرنگوں ہونے نہیں دیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.