وطن ڈوب چکا، لاٸحہ عمل کیا ہو۔۔۔۔۔؟

تحریر: فرید مینگل

بلوچستان بھلا نوآبادیاتی نظام کے ہوتے ہوٸے کب خوشحال رہ پایا ہے، ان حاکموں نے اس کا تو مقدر ہی اپنے زوراور جبری بازوٶں سے یہ لکھ ڈالا ہے کہ بلوچستان کا باسی بھوکا رہے، بدحال رہے، بے بس رہے، عدم تحفظ کا شکار ہے تاکہ وہ کبھی بھی اپنے اوپر اٹھنے والے ہاتھوں کی طرف دیکھ ہی نہ پاٸے، وہ بلوچ کو پیٹ اور چھت کے پریشانیوں میں اس طرح الجھا رہے کہ وہ خود کو بھوکا اور بے گھر رکھنے والوں کی سفاکیت کے متعلق تو سوچ بچار تک نہ کر پاٸے۔

بلوچستان میں بھوک، افلاس، بزگی بدحالی نے تو ان حاکموں کی مرضی و منشا سے دہاٸیوں سے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔ مگر حالیہ سیلاب نے لوگوں کو اس وقت بے حال کر دیا ہے، لوگ کسمپرسی کی حالت میں ہیں، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، ماٸیں بچوں کی میتیں لیے خشک زمین ڈھونڈ رہی ہیں کہ انہیں دفن کرنے کو خشک زمین میسر نہیں۔ بے گھروں کی حالتِ زار یہ ہے کہ لوگوں کو کھانے کو کچھ میسر نہیں۔ لوگوں کا راشن سامان بہہ چکا ہے۔

اس وقت ان مجبور بدحال لوگوں کا سہارا آپ ہی بنیں کہ حکومتیں انسانیت سے عاری ہو چکی ہیں، حکام مر کھپ چکے ہیں۔ ایم پی ایز ایم این اپنے ضمیر بیچ کر گاڑی بنگلوں کی نظر ہو چکے ہیں۔ ان مجبور، بے گھر، بے سہارے وطن واسیوں کا آسرا بنیں، ان بھوکے بچوں کےلیے خوراک و پوشاک کا بندوبست کریں، امدادی کیمپس کے ساتھ تعاون کریں، انہیں کپڑا، راشن، ادویات و دیگر بنیادی اشیا فراہم کریں کہ یہ بے بس و بے سہارا ماٸیں اور بھوک سے بلکتے بچے آپ کی امداد کے منتظر ہیں۔

ان تمام امدادی کیمپس اور لوگوں کی کمک کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں، طلبہ تنظیمیں، سیاسی و شعوری حلقے اس تباہ حالی پر آگے بڑھیں اور مسلط حکمرانوں کو ان کی انسان دشمنی، بلوچ دشمنی، بے ضمیری پر لعنت ملامت کریں۔ ان اسمبلیوں میں بیٹھنے والے درندے ہماری لاشیں نوچنے کےلیے اپنے خونی دانت تیز سے تیز تر کر رہے ہیں مگر ہم تک، ہمارے بلکتے بچوں تک نہیں پہنچ پاتے۔

ایک بات تو ہم پر واضح ہے کہ ان بے پیر و مردہ ضمیر حکمرانوں اسمبلی میں لا کر بٹھانے والے اور انہیں بھگانے والے وہ طاقتیں ہیں جن کے پالیسیوں کی بدولت آج ہماری حالت زار یہاں تک پہنچی ہوٸی ہے۔ مگر اس اسمبلی کو اپنی جھوٹ و فریب کا سہارا بنا کر عوام و باقی دنیا کو جھوٹی تسلیاں دے کر یہ بتانا کہ جی بلوچستان میں ایک حکومت بھی ہے، اس شرمناک جھوٹ کو، ان زر خرید گھوڑوں کو اب بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بلوچستان اسمبلی میں بیٹھے ڈمیوں کی حقیقت کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کرنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت امدادی کیمپس کے ساتھ ساتھ تمام تر سیاسی حلقے اس بات پر زور دیں کہ ان اسمبلیوں میں بیٹھے کرپٹ، مسلط، اور غیر کے اشاروں پر ناچنے و بلوچ کو نوچنے والی اشرافیہ کے منظور نظر مردہ ضمیروں کو کسی طرح سے بے نقاب کر کے پریشراٸز کیا جا سکتا ہے۔ آج ان کی اصلیت و اصل حقیقت عام عوام اور باقی مہذب اقوام کے سامنے لانا چاہیے، پریس کانفرنسز ہوں، منفرد مظاہرے ہوں، ان ڈمی نماٸندوں کا ہر جگہ گھیراٶ ہو، ان کو بلوچ قوم پر مسلط کرنے والوں سے سوالات ہوں، سوشل میڈیا پر ان کی اسے انسانیت سے عاری، سفاک کاذبیت و مکاری کو زیادہ سے زیادہ اٹھایا جاٸے، اپنی آواز اور ان کی بے حسی کو عالمی دنیا تک پہنچایا جاٸے کہ اب ہمیں ان بے حس بے ضمیر زرخریدوں نے اجتماعی موت کے حوالے کر ڈالا ہے اور ان کے پیشانیوں پر شرم کے آثار تک نظر نہیں آتے۔

تو آٸیں مل کر اس برباد و تباہ کن صورتحال میں ان مسلط غاصبوں کا احتساب کریں، ان کی مکاری و بلوچ دشمنی کو فاش کریں، ان کی سفاکیت کو دنیا کے سامنے لاٸیں اور ان کو بشمول ان کے مالکوں کے جوابدہ کریں۔ ایک بات ہم پر واضح ہو کہ اس وقت ہماری حالت زار اس حد تک ہے کہ ہم انفرادی طور پر فقط ایک علاقے کو بھی نہیں بچا سکتے اور ادھر تو پورا کا پورا بلوچ وطن ڈوب چکا ہے، بلوچ ڈیرہ غازی خان سے لے کر ملیر تک بد حالی کا سامنا کر رہا ہے، ایسی آفت سے نمٹنا فقط بڑے پیمانے پر ریاستی ذمہ داری سے ممکن ہے، عالمی اداروں کی کمک و امداد سے ممکن ہے۔

اور بلوچ کے خون کو چوسنے والے حکام ہماری تباہی و بربادی پر علاقاٸی و عالمی حلقوں سے امداد بھی لیں گے اور ڈالر بھی بٹوریں گے مگر ہمارے مقدر میں یہی موت لکھیں گے بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کی عطا کردہ موت مزید سفاک ہوگی، مزید ازیت ناک ہوگی، لاشوں میں اضافہ ہوگا، تباہی شدت اختیار کرے گی۔

تو آٸیں سب مل کر اس بے حس ریاست کے ان مسلط نماٸندوں اور اسمبلیوں میں بیٹھے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑیں انہیں جوابدہ کریں، ان کو اپنی مدد پر مجبور کریں، ان کی پوری کی پوری ریاستی مشینری ہماری اموات پر تماش بین ہے اس تماش بینی میں خلل ڈالیں، ان کو باہر نکلنے اور خود تک پہنچنے کےلیے مجبور کریں۔ ایسے ہی بیٹھے رہنے اور فقط چندہ کرنے پر یہ مردہ ضمیر ہماری ہر لاش کو بیچ کھاٸیں گے، ہر منہدم مکان کے بدلے اپنے لیے فلیٹ و بنگلہ کھڑا کریں گے، ہر مردہ مویشی کے بدلے لگژری گاڑی کا انتظام کریں گے۔ کیونکہ نوآبادیاتی علاقوں میں مسلط حکمران محکوم کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں جب تک محکوم انہیں اپنی چیخ و پکار سے مجبور نہ کرے کہ وہ اس قبیح و سفاک غیر انسانی عمل سے باز آجاٸیں یا ختم ہوجائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.