لاپتہ عوامی نماٸندے

تحریر: سازین بلوچ

وہ تمام ممالک جو خود کو تہذیب یافتہ کہتے ہیں وہاں جب بھی موسمی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں یا پھر کوئی بھی بحرانی کیفیت جنم لیتی ہے تو ان کی سب سے پہلی ترجیح اپنے عوام کو محفوظ کرنا ہوتا ہے ان کو ریسکیو کرنا ہوتا ہے ، وہاں ایسے بحران زیادہ دیر تک نہیں رہ پاتے ایسی کیفیت سے انسان جلد چھٹکارا حاصل کرتا ہے۔ ہم مثال مسقط اور چین کا لے سکتے ہیں کہ پچھلے سال جب وہاں سیلابی صورتحال نے جنم لیا تو وہاں ایک ہی دن میں حکومت نے عوام کے ساتھ مل کر ان تمام تر صورت حال پر قابو پا لیا، لیکن ایک بار پھر دہراتی ہوں کہ میں تہذیب یافتہ ممالک کی بات کر رہی ہوں۔

مسلط حاکموں کی جبر کے شکار محکوم اقوام و وطن جہاں لوگ لاپتہ کیے جاتے ہیں، فیک انکاؤنٹرز میں مارے جاتے ہیں، غلطی سے طالب علموں کو آٹھ آٹھ گولیاں مار کے قتل کیا جاتا ہے، جہاں جیتے جاگتے انسانوں کو لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور ان لاپتہ افراد کے لواحقین کو بھی اذیت میں ڈالا جاتا، جہاں چوروں، مکاروں، ہمیشہ ییس سر کرنے والوں کو اسمبلیوں میں بھرتی کر کےحکومتیں دی جاتی ہیں۔ اور اس کارِ بد کے عوض ان کےلیے بینک بیلنس، بنگلوں، بد مہذب عیاشیوں کا سامان کیا جاتا ہے اور پھر محکوم وطن کو سفاکیت سے لوٹا جاتا ہے۔

ان نوآبادیاتی علاوقوں میں آفت و بحران جس بھی قسم کے ہوں، انہیں یہ غاصب و مسلط ڈمی حکمران بطور آلہ استعمال کرکے اُس محکوم وطن کے باسیوں کو مزید بد حال ہونے، بھوکا سونے اور آسمان تلے مرنے کےلیے چھوڑتے ہیں تاکہ ان کا کبھی نہ بھرنے والا پیٹ اور کبھی ختم ہونے والی بھوک کا سامان میسر ہوتا رہے۔ کیونکہ یہ لوگ قدوس و جام، سرفراز، و بلوچستان اسمبلی کے باقی اراکین کی طرح فقط تنخواہ دار و مراعات کے طلبگار ہوتے ہیں۔ انہیں عام عوام سے کوٸی سرو کار نہیں ہوتا، عام عوام میں سے ہوتے ہی نہیں ہیں۔

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ حاکم و محکوم دنیا میں ریاست ماں ہوتی ہے، نہیں بالکل بھی نہیں، ریاست کبھی ماں نہیں بن سکتی، ریاست تو فقط جبر کا ایک آلہ ہے جو جس طبقے کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ دوسرے طبقے کو اس موت کے آلے سے قتل کرتا رہتا ہے۔ لیکن پہلی اور دوسری دنیا میں بحرانی کیفیت جب بھی آتی ہے تو ریاست یہ سوچ کر اس صورتحال پے قابو پاتی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ مزید تباہی ہو اور مزید سرمایہ تباہی کی طرف جائے اسی لئے سب مل کے کام کرتے ہیں تاکہ ملک بچ جائے، عوام محفوظ ہو اور ملک کا سرمایہ بچ جائے۔ لیکن تیسری دنیا جہاں ریاستی حکمران سفاک و انسانیت سے عاری ہوں وہاں فقط موت کا راج ہوتا ہے، انتظار بھرا، سسکتا بلکتا، تکلیف دہ موت، زندگی سے مایوس، بےبسی بھرا موت۔

بلوچ وطن کی حالت زار ہو بہو ایسی ہے، جہاں موت کا راج ہے، بے بسی ہے، بزگی ہے، افلاس ہے، اور حاکموں کی بے بے حسی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں جہاں لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، لاکھوں لوگ بھوکے ہیں بے یار و مدد گار ہیں. سیکڑوں لوگ ڈوب کر مر چکے ہیں اور ہزاروں لوگ مختلف امراض میں مبتلا ہیں ان کا مال مویشی جو لاتعداد ہے وہ تباہ ہو چکے ہیں اور ان کی زمینیں برباد ہوگئے ہیں، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں. کوٸی پرسان حال نہیں۔ حکومت غاٸب ہے، اسمبلی اراکین عیاشیوں، رنگ ریلیوں اور محلوں سے نکلتے، انتظامیہ دولت سمیٹنے اور مزید تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں بیٹھے ہر رکن نے ایک بات مزید واضح کردی اور اس بد حال بلوچ عوام کو ایک اور ثبوت دے ڈالا کہ یہ اسمبلی فقط ایک تقریری کلب ہے، جہاں اچھی تقاریر کر کے کروڑوں اروبوں روپے ان ہی افراد کے اکاٶنٹس میں جا سکتے ہیں، اس اسمبلی کے اراکین عیاشی، مکاری، سفاکی، سودے بازی، چرب زبانی اور خود کو اسمبلی تک ہہنچانے والوں کی جی حضوری کر سکتے ہیں مگر عوامی نماٸندگی ان کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ان کی دلچسپی اس مدعے سے ہے۔

تو آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم ان اراکین اسمبلی اور ان کے لانے والوں کو اس المناک صورتحال پر، اس انسانی بحران پر جوابدہ کیا جاٸے، ان کے عوامی نماٸندہ ہونے کے فاش جھوٹ کو بے نقاب کیا جاٸے، انہیں ان کی لوٹمار و عیاشیوں پر ملامت کی جاٸے، سب سے بڑھ کر ان کا گھیراٶ کیا جاٸے اور ان کو ہر گرتے اینٹ، بلکتے بچے، ماٶں کے ہر گرتے آنسو کا ذمہ دار ٹھہرایا جاٸے، اور ان سے حساب لیا جاٸے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.