لالا فہیم کا جرم

تحریر: گل بانو بلوچ

لکھنا تو بہت چاہتی ہوں مگر اِس قلم اور کاغذ سے درد بیان نہیں ہو پاتے. منتظر آنکھیں اپنی داستان خود بتاتے ہیں، لرزتے ہونٹ، کانپتی جسم، نم آنکھیں مگر حوصلہ پہاڑ کی طرح سخت اور مضبوط اور اپنوں کا حوصلہ ایک اُمید کی روشنی جیسی نظر آتی ہے کہ میرا فہیم آۓ گا، لالا ایک بار پھر اپنی حسین مسکراہٹ لیے لوٹے گا، اور کہے گا تمہارے لیے کتاب بھیجا ہے، پڑھ لینا۔

فہیم کتابوں کی طرح خاموش اور معصوم ہے. وہ کتابوں کو کبھی نیچے فرش پر نہیں رکھتا تھا. اُس کا کہنا ہے کہ ہر کتاب قرآن کی مانند ہے. کیونکہ ہر کتاب کامیابی اور شعور کی راہ دکھاتی ہے. فہیم شعور کا رکھوالا ہے، کتابوں کا پاسبان ہے۔

جہاں بھی کتابوں کا ذکر ہوتا یا بُک اسٹال لگتا تو فہیم کو ہم وہیں پاتے، مہنگاٸی نے جب آسمان چُھو لیا تو فہیم ہی وہ کتاب دوست انسان تھا جس نے طلباء کو مفت کتاب فراہم کیں تاکہ نوجوان علم کی روشنی سے دُور نہ رہیں۔ میری الماری میں فہیم کی دی ہوئی تقریبًا بائیس کتابیں ہیں جو اُس نے مجھے دیے ہیں جن میں سے اکثر پڑھ لی ہیں اور علمی و ذہنی ذخیرے پاٸے ہیں۔ اور یہ کتابیں فہیم نے مجھے مفت دیے تھے کیونکہ میں خرید نہیں سکتی تھی. میرا شوق دیکھ کر فہیم نے کہا کہ گُل بانو تمہارے شوق کے آگے پیسے کی کوئی اہمیت نہیں، اور کہتا تھا کہ نوجوان کتابیں پڑھیں پہنچانا لالا کا کام ہے۔

میں نہیں جانتی فہیم کہاں ہے کیسا ہے مگر میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ وہ جہاں بھی ہوگا اپنی کتابوں۔کو بہت یاد کر رہا ہوگا.

فہیم بلوچی شاعر کے شعر سُنایا اور سمجھایا کرتا تھا اور اگر ہمیں کوٸی شعر سمجھ نہ آتی تو وہ یہی کہتا کہ “وہ شعر ہی کیا جو آسانی سے سمجھ آۓ”

فہیم کی گفتگو میں صرف کتابوں کا ہی ذکر ہوتا تھا۔ فہیم کے سامنے جب کسی کتاب کا ذکر کیا جاتا تو وہ بنا کتاب کھولے پوری کتاب اور مصنف کے بارے میں اچھے الفاظوں میں بیان کرتا اور ہماری جستجو بڑھاتا تھا۔ فہیم سے جب پوچھا جاتا کہ فہیم تم کتابوں کے علاوہ کوئی اور بات کیوں نہیں کرتے تو وہ یہی کہتا کہ میں تو اُس گھر میں داخل ہی نہیں ہوتا جس گھر میں کتاب موجود نہ ہو۔ فہیم کی والدہ اور والد کے انتقال کے بعد فہیم نے صرف کتابوں سے محبت کی۔ کتابوں کی خوشبو میں جیتا اور سانس لیتا تھا۔

آخر کتاب دوست سے ریاست اتنی خوفزدہ کیوں ہے؟؟ فہیم نے کتابوں سے محبت کی، کیا فہیم کو کتاب دوست ہونے کی سزا مل رہی ہے۔۔۔۔؟ کیا کتاب پڑھنا، لکھنا اور دوسروں تک علم پہنچانا کوئی جرم ہے۔۔۔؟ کیا فہیم مجرم ہے؟ کیا فہیم چور، ڈاکو ہے؟ اگر ہے تو تمہاری عدالت کس لیے بنائے گئے ہیں؟ یہ بات بھی یاد رکھی جاۓ کہ سندھ پولیس نے بنا اریسٹ وارنٹ کے فہیم کو اپنے گرفت میں لے لیا اور اگر گرفت میں لیا ہے تو تمہارے مُلک کے قانون کے مطابق 24 گنٹھے گزرنے کے بعد مجرم کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ تو سندھ پولیس نی اپنے آہین کی پامالی کیوں کی؟ پورا ملک جانتا ہے کہ فہیم ایک کتاب دوست ہے جو ہر وقت کتابوں میں مگن رہتا تھا. تو یہ ریاست اندھی, گونگی, بہری کیوں ہے؟؟ کیا سندھ پولیس اپنے ملک کے سارے قاعدے قوانین بُھول گیا؟ کیا سندھ پولیس نے پیسے دیکھ کر اپنا ضمیر بیچ دیا؟؟ کیا اِس ملک میں انصاف نہیں؟

سی سی ٹی وی فوٹیج میں صاف ظاہر ہے کہ رات کے 9 بجے سندھ پولیس 3 لوگوں کے ہمراہ فہیم کو اُس کے دُکان علم وادب سے لے جارہی ہے, تو سندھ پولیس خاموش کیوں ہے؟؟ ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی؟؟ فہیم کو کہا لے گیا سندھ پولیس؟؟ فہیم کو سندھ پولیس لے کر گئی تھی مگر فہیم پولیس اسٹیشن میں نہیں ہے تو کہاں ہے۔۔؟ سندھ پولیس نے فہیم کو کس کے حوالے کیا۔۔؟

لالا فہیم کے زندگی کا ہر لمحہ کتاب دیکھتے، صفحے پلٹتے، کتاب بھیجتے اور نوجوانوں تک پہنچاتے گزرا ہے یہی لالا کا جرم ہے، اور اس جرم کو تو کوٸی بھی ایک باشعور نیک انسان کرتا ہے اور کرے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.