کتاب دوست لالا

تحریر: رضوانہ بلوچ

فکر و دانش اور علم و حکمت کے متلاشی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ نہیں ہے کوئی رفیق کتاب سے بہتر، تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ قوموں کی ترقی علم و فنون سے ہوتی ہے۔ جن کا ہتھیار قلم اور اوڑھنا کتاب ہو وہ ترقی کی راہوں پر فقط سفر نہیں کرتے بلکہ رج رج کر اس پر کھٹن راہ کو پھلانگتے رہتے ہیں۔

لالا فہیم بھی ایک ایسی ہی عظیم شخصیت ہیں جس نے صرف کتابوں سے محبت کی ہے۔ میں کبھی لالا سے نہیں ملی لیکن ہر شخص کے زبان سے یہی سنا ہے کہ لالا نے انھیں سوغات میں اپنی قیمتی کتابیں پیش کی ہے۔ لالا کا کتاب دوست ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جایا جا سکتا ہے کہ جب بھی کوئی ان سے ملنے جاتا یا جاتی تو وہ تحفے میں اپنی قیمتی کتابیں ان کو پیش کرتے۔لالا وہ انسان ہے جس نے اپنی دل، دماغ و دنیا اور دکان کتابوں سے سجایا ہوا ہے۔ کتاب دوست انسان کی اغوا گیری سے یہ دلیل مزید واضح و باوثوق ہو گیا کہ قلم بندوق سے زیادہ طاقتور ہے۔

کتابیں لالا کی زندگی کا حصہ تھے بلکہ کتابیں ہی اس کی زندگی تھے۔ وہ کتابوں سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ کتابوں سے اس نے دنیا کے رنگ دیکھے، کتابوں سے ان کی دوستی تھی وہ کتابوں کے ساتھ اپنا وقت گزارتے تھے۔

عربی زبان کے نامور شاعر متنبی کے ایک شعر کا مصرع ہے ”وخیر جلیس فی الزمان کتاب“ کہ زمانہ میں بہترین ہمنشین کتاب ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھی کتاب اپنے قاری کے لیے ایسے دوست کی حیثیت رکھتی ہے جو اُس کو کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتی ہے نہ اکتاہٹ کو اُس کے قریب بھٹکنے دیتی ہے، یہ ایک ایسے ہمسفر کی مانند ہے جو اپنے ساتھی کو دوردراز کے علاقوں اور شہروں کی سیر کرادیتی ہے، اسی سے انسان کو ایسی شخصیات سے مصاحبت کا شرف حاصل ہو تا ہے, کتابوں سے وابستگی کی نعمت کا کسی کو ادراک ہو جائے تو اُس کے لیے بغیر مطالعہ کے زندگی گزارنا دشوار ہو جاتا ہے، یہی اس کے دن رات کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے، وہ اگر بیمار بھی ہوتا ہے تو کتاب ہی اُس کا علاج ہوتی ہے، رنج و بے چینی کی حالت میں کتاب ہی اس کی غمخواری کا سامان فراہم کرتی ہے، مشکلات ومصائب میں بھی وہی تسلی کا باعث ہوتی ہے کیونکہ کتاب ہی تو اُس کے شب وروز کی دمساز و ہمراز بن چکی تھی۔

لالا بھی وہاں صرف اپنے کتابوں کو یاد کر رہا ہوگا، ان کی کتابیں بھی ان کے لیے روتے ہونگے دعاگو ہوں گے کہ ان کو بھی ان کا مرشد چاہیے، رکھوالا چاہیے۔ کتابوں سے بھری دکان لالا کی گمشدگی کا سبب بنے۔ وہ کتاب خانہ ان کا محل ہے۔

بلوچستان جہاں کتابیں اور قلم آپ کے جرم کا سبب بنتے ہیں یہاں کتاب دوست علم دوست کے لیے ذندان تیار کیے جاتے ہیں اور پھر ان کو وہیں اندھیر عقوبت خانوں میں انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔

لالا فہیم بلوچ بھی اسی طرح اس وقت اندھیر عقوبت خانوں کے حوالے کیے جا چکے ہیں، جہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ لالا جو کہ کتاب کی شکل میں روشنیاں بانٹتا تھا آج ظالموں کے ھاتھوں خود اندھیروں کا شکار ہے، جبر و اذیت کا شکار ہے۔ لالا کو پھر سے کتابوں کی پاسبانی کرنے دی جاٸے کہ اس کے بغیر کتابیں ضاٸع ہونگی، روشنیاں بجھ جاٸیں گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.