عورت کی حالت زار

تحریر: صادقہ بلوچ

اسلام نے عورت ذات کو سب سے ذیادہ عزت دیا ہے لیکن اسلام کو ماننے والے عورت ذات کی بلکل عزت نہیں کرتے۔ ہمارا سماج ایک پدر شاہانہ سماج ہے یہاں مرد کو عورت پر برتری دی جاتی ہے۔ حالانکہ مرد کی اپنی ایک الگ حیثیت ہے اور عورت کا اپنا ایک الگ وجود، لیکن دونوں کو ایک دوسرے پر برتری دینا یہ عقل والی بات نہیں۔ چونکہ مرد کو اس سماج میں برتر سمجھا جاتا ہے اس لئے بہت سارے خواتین اسی وجہ سے مختلف قسم کے مشکلات سے گزرتے ہیں۔

اس سماج میں عورت بہت پہلے سے ہی مشکلات کا شکار ہوتی رہی ہے یہاں پر ایک عورت کےلیے جینا بہت ہی کھٹن ہوتا ہے۔ ہمارے مذہب نے تو عورت کو کسی حد تک حقوق دینے کی تاکید کی ہے مگر یہاں لوگ اپنے رسم و رواج پر پہلے توجہ دیتے ہیں جو کہ مذھبی قدامت پسندی اور جاگیرداری نفسیات کا مکسچر ہیں۔ یہاں میں بات کرنا چاہوں گی بلوچستان کی جہاں مجموعی طور پر بلوچ عورت کے ساتھ بہت ہی ظلم و زیادتیاں ہوتی آ رہی ہیں۔ بلوچستان کی بیٹوں کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے اور کم عمری میں ہی ان کی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔ باقی صوبوں کے نسبت اگر دیکھا جائے تو بلوچ خواتین دوسروں صوبوں میں رہنے والی خواتین سے بہت طریقوں سے مختلف ہے۔ بہتر تعلیم حاصل کرنے، اپنے حقوق ماننے، اپنا جیون ساتھی چننے، کم عمری کی شادیوں کے خلاف آواز اٹھانے کےلیے بلوچ خواتین کو بلکل آزادی حاصل نہیں ہیں۔

ہر انسان کو جینے اور مستقبل کو بہتر بنانے کےلیے خواب دیکھنےکا حق حاصل ہوتا ہے لیکن بلوچستان میں یہ خواب دیکھنا لڑکیوں کے حق میں جرم مانا جاتا ہے۔ کہنے کو تو ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں پر نفسیات و رسم و رواج آج بھی وہی فرسودہ اور پرانے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی بھی یہاں پہ مرد اور عورت کے درمیان کے فرق کو مٹا نہ سکی۔ عورت مرد سے کمتر ہے تو وہ گھر ہی بیٹھے، تعلیم تو دور کی بات ہے لیکن گھر میں اپنے حق کےلیے بات بھی نہیں کرسکتی اگر غلطی سے بھی کسی نے ان سب کے خلاف جا کر کچھ کیا یا کہا تو معاشرے میں اس کو بد کردار، بد چلن اور ایسے بہت سارے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

عورت کو غیرت، ننگ و ناموس کے نام پر قتل کرنا تو ایک عام سی بات ہے جیسے کوٸی وڈیرہ ۔ اس سماج میں غیرت کے نام پہ قتل کرنے کے رواج نے تو اپنا ایک الگ مقام قائم کر لیا ہے۔ یہاں لڑکیوں کو بچپن سے پڑھنے لکھنے کے بجائے روٹی پکانے، کھانا پکانے اور شادی کے خواب دیکھائے جاتے ہیں۔ شادی کے وقت مرد کی عمر کو نہیں دیکھا جاتا بس لڑکی کو اس کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے۔ خواہ مرد ایک موالی درندہ ہو یا چور و ڈکیت ہی کیوں نہ ہو لڑکی کچھ کہہ بھی نہیں پاتی کیونکہ یہ اس کی قسمت بتا کر اسے زندگی بھر اس جہنم گزارنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں کچھ ایسی بھی لڑکیاں ہیں جو پڑھنے لکھنے کے خواب دیکھتے ہیں، اڑنے کے خواہش رکھتے ہیں مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے اس خواب کو حقیقی شکل دیں ان کے پر کاٹ دی جاتے ہیں اور زور زبردستی کم عمری میں ان کی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔ سمن ڈی بواٸر کے مطابق ” مرد عورت کے پر کاٹ کر کہتا ہے، عورت اُڑ نہیں سکتی“۔ نوجوان لڑکیوں کا بڑی عمر کے مردوں کی ساتھ شادی کرانا یہاں معمول بن چکا ہے۔ عورت ذات سے یہ اختیار چھین لیا گیا ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ نکاح کے وقت لڑکی سے اس کے رضا مندی نہیں پوچھی جاتی بس ان کو یہ سیھایا جاتا ہے کہ یہ سب آپ کی قسمت میں ہی لکھا ہے۔

بدقسمتی سے اگر کسی لڑکی نے ان سب مظالم کے خلاف آواز اٹھایا بھی تو اپنے بلوچی روایات، معیار اور فیصلوں کے بنا پر سنگسار یا ان کے سینے میں گولیاں اتاری جاتی ہیں۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم جہالت کے اس دور میں آگئے ہیں جہاں انسان کے خون سے اپنے رسموں کو چمکایا جاتا ہے ایک صنفِ نازک کا قتل کرکے آخر یہ سب کب تک چلتا رہے گا کب تک ایک معصوم کو ایسے گناہ کی سزا دی جاتی رہے گی جو اسکے گمان میں بھی نہیں ہے
کیا ایک لڑکی ہمیشہ ایک بوجھ ہی سمجھی جاتی رہیگی، جسے فقط مال مڈھی کے طور پر مرد آپس میں بانٹتے رہیں گے۔۔۔۔۔؟

Leave a Reply

Your email address will not be published.