جامعہ بلوچستان سب کیمپس خاران تباہی و بربادی کا شکار

تحریر: سجاد بلوچ

حاکمِ وقت بلوچ سماج کو تاریکیوںو ویرانوں میں دھکیلنے کےلیے دہائیوں سے کوششیں کرتا چلا آرہا ہے۔ طاقتور قوتوں کی جانب سے معاشرے کی روشن چراغوں کو ایک ایک کر کے بجھایا جا رہا ہے، بچی کُچھی روشنی یوں موم کی طرح خود آہستہ آہستہ بلک بلک کر پگھلتے جارہے ہیں امید کی کرنوں کو بند کردیا جارہا ہے کتابوں پر تالے لگائے جارہے ہیں کتاب دوست انسانو کو زندانوں میں قید کر دیا جارہا ہے کھلے آنکھوں میں تیر، خنجر گھونپ دیا جارہا ہے۔ بلوچستان کو یوں تاریکی راہوں میں دھکیلا جارہا ہے اب وقت آچکا ہے کہ ایسے ظالم و درندہ صفت حکمرانوں کی من مانیوں کے خلاف ہم سب ایک آواز بنیں متحد و یکجاء ہوکر ایک قوت ایک طاقت بنیں اتحاد ہی وہ واحد زریعہ ہے جس کی بدولت ہم ظالم کی کارستانیوں کو للکار سکتے ہیں اور ایک پاک پوتر دھرتی کے رکھوالے ہوسکتے ہیں۔

حاکم کی حاکمیت کو معاشرے میں کسی چیز سے بھی کوئی خطراہ نہیں ہے ماسوائے کتاب و قلم کے اسی وجہ سے حکمرانوں نے بلوچستان کے تمام تر تعلیمی اداروں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے جہاں تعلیم ہوگا تو صرف حکمران طبقات کے لیے اور تعلیمی نظام حکمرانوں کی ہاتھوں میں ہی ہوگا۔ باقی دیگر زیر تعلیم نوجوان طالب علم حکمران طبقے کے غلام ہونگے، یہی صورتحال ہمیں جامعہ بلوچستان میں بھی دیکھائی دے رہا ہے جہاں انتظامیہ نے اس ادارے کو اپنا ذاتی جاگیر بناٸے رکھا ہے آئے روز یونیورسٹی انتظامیہ بلوچستان کے طلباء وطالبات کو تعلیمی، ادبی، سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کی کوششیں کرتا چلا آرہا ہے۔

جامعہ بلوچستان بمعہ سب کیمپسز اس وقت شدید بحرانی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے سالانہ فیسوں میں اضافہ کیا جارہا ہے، میرٹ کی دھجیاں اڑاٸی جا رہی ہیں، ڈیپارٹمنٹس میں مستقل بنیادوں پر اساتذہ کی عدم موجودگی ہے، ہاسٹلوں کا انفرا سٹرکچر تباہ و برباد ہے، ٹرانسپورٹ کا نظام تو بلکل ہی درہم برہم ہے، کینٹینوں میں معیاری اور سستے داموں میں کھانے پینے کی اشیاء بھی نہیں مل رہے۔ جامعہ بلوچستان کے تعلیمی نظام کو مزید بگاڑنے کےلئے شاہ نے اپنے وفادار غنڈوں کو تعینات کردیا ہے جو انتظامیہ کی تعلیم دشمن پالیسیوں کے خلاف ہر ممکن کوشش کو ناکام بنا دیتے ہیں اور مزید تعلیمی سٹرکچر کو حکمرانوں کے ہاتھوں منتقل کر دیتے ہیں۔

جامعہ بلوچستان کی سب کیمپس خاران بھی انہی بنیادی سہولیات سے محروم دیکھائی دے رہا ہے۔ دہائیوں سے بیرونی طاقتوں کی یلغار سے لے کر اندرونی طبقاتی کشمکش نے بلوچستان اور خاران کے تعلیمی نظام کو بگاڑ دیا تھا۔ بیرونی طاقتوں اور اندرونی نمائشی سرداروں نے علاقے کے نوجوانوں کو شعوری تعلیم سے بلکل دور کر دیا تھا نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب و قلم کی جگہ علاقے کے خود ساختہ قبائلی رہنماؤں نے بندوقیں تھما دیے تھے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ خاران شہر کی حالت کسی جنگی اکھاڑے سے کم نہیں تھا۔ علاقے میں تعلیم کی شرح بلکل زمین کو چھورہی تھی میٹرک یا ایف ایس سی کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے علم سے آشنا نواجوان کچھ تو پاکستان کے بڑے شہروں میں جاتے تھے اور باقی ماندہ نوجوان طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرنے کے سبب میں یا تو مزدوری کرتے تھے یا کسی سردار، میر و معتبر کے باڈی گارڈ بنے پھرتے تھے وقت گزرتا گیا علاقے کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔

پھر یوں ہوا کے علاقے کے علم دوست نوجوان طالب علموں کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے خاران شہر میں ایک درسگاہ جامعہ بلوچستان سب کیمپس خاران کے نام سے قائم ہوگئی۔ آہستہ آہستہ اس ادارے کی بدولت خاران کے نوجوان طبقے نے شاہ کی جی حضوری ترک کر کے اس ادارے کی جانب گامزن ہوتے گئے اسی طرح خاران اور باقی دیگر آس پاس کے علاقے کے نوجوانوں میں خوشیوں کی لہر دوڑ پڑی اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے نوجوانوں نے حقیقی معنوں میں اس ادارے کو اپنا مسکن بنا دیا۔

مگر کیا حاکم وقت بلوچ نوجوانوں کے لیے تعلیم کے دروازے ہمیشہ کیلئے کھلا چھوڑ دیتا ہے کیا یہ بے رحم یونیورسٹی انتظامیہ خاران کے طلباء کو تعلیم جیسے زیور کو گلے لگانے کے لیے چھوڑ دیگا نہیں یہ ہر گز نہیں پِر وہی ہوا جو حاکمِ وقت یونیورسٹی انتظامیہ کو منظور تھا۔

کیمپس کی حالت دن بدن بگڑتی چلی گٸی۔ اساتذہ، طلباء و طالبات یونیورسٹی میں ہاسٹل سے محروم، کینٹین اور دیگر میس وغیرہ کی سہولت بھی نہیں، ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم کا شکار، پرانے ڈیپارٹمنٹس کو مزید ترقی نہیں دی جارہی، اور ان ڈیپاٹمنٹس کیلئے مستقل بنیادوں پر اساتذہ کی عدم موجودگی، پورے کیمپس میں صرف تین ڈیپاٹمنٹس ہیں ان کے علاوہ باقی نئے ڈپارٹمنٹس بھی نہیں کھولے جارہے ہیں گزشتہ سال کافی کم تعداد میں طلباء و طالبات نے کیپمس میی داخلے لیے تھے اور اس سال خبر ملی ہے کہ صرف دو تین طالب علموں نے کیمپس میں داخلے لیے ہیں۔

اب علاقے کے نوجوانوں کی خوشیاں غم و غصّے میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں بلوچستان کے باقی دیگر شہروں سے آنے والے طلباء جہنوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جامعہ بلوچستان سب کیمپس خاران میں داخلے لیے تھے اب مایوسی کی حالت میں یونیورسٹی چھوڑ کر واپس اپنے اپنے علاقوں میں جارہے ہیں۔ کیا پتہ کون جانے کے ہمارے مستقبل کے معمار تعلیم حاصل کرنے کے لیے اب کیا کریں گے کہاں جائیں آیا وہ جائیں گے یا نہیں یا گزرے ہوئے وحشت ناک تباہی کے دور واپس آئیں گے۔ اب واپس نوجوان طبقہ سرداروں کی جی حضوری اور ان کے کالے کرتوتوں کی حفاظت میں قلم کی جگہ واپس بندوق اٹھائیں گے پر اسی طرح آہستہ آہستہ یہ علاقہ نرگ بن جائیگا کیونکہ اب یونیورسٹی کیمپس تباہی و بربادی کا آماجگاہ بن گیا اب اس درسگاہ پر سیا بادل چھا گئے اب یہ ادارہ شاہ کی زاتی جاگیر جو بن چکی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.